غزہ میں جنگ بندی کی خلاف ورزی؛ صہیونی ریاست کی سیاسی بحرانوں سے فرار اور امریکہ کی پشت پناہی

غزہ میں جنگ بندی کی خلاف ورزی؛ صہیونی ریاست کی سیاسی بحرانوں سے فرار اور امریکہ کی پشت پناہی

?️

سچ خبریں:ایسے وقت میں جب غزہ اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے صرف تین ماہ ہی گزرے تھے، تل ابیب نے مرحلہ دوم پر عملدرآمد سے انکار کرتے ہوئے دوبارہ وحشیانہ حملے شروع کر دیے ہیں۔ 

مبصرین کے مطابق، اس فیصلے کے پیچھے دو بنیادی عوامل کارفرما ہیں: امریکہ، خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاسی و فوجی حمایت، اور خود صہیونی حکومت کے اندرونی بحرانوں سے فرار کی کوشش۔
 اسرائیل کا جنگ بندی سے پیچھے ہٹنا
مرحلہ اول کے تحت، اسرائیل اور حماس کے درمیان اسیران کا تبادلہ عمل میں آیا، لیکن جیسے ہی بات مرحلہ دوم غزہ سے انخلاء اور مکمل جنگ پر پہنچی، اسرائیل نے نہ صرف اپنی پیشگی شرائط عائد کر دیں بلکہ دوبارہ بمباری کا آغاز کیا۔ نتیجتاً، شمالی، وسطی اور جنوبی غزہ ایک بار پھر صہیونی جارحیت کا نشانہ بنے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، تل ابیب دانستہ طور پر جنگ بندی کو سبوتاژ کر رہا ہے تاکہ نہ صرف جنگ جاری رکھ سکے بلکہ باقی 59 صہیونی اسیران کی رہائی کے لیے حماس پر دباؤ بھی بڑھا سکے،اس پالیسی کے خطرناک نتائج خود صہیونی شہریوں کے لیے بھی ہیں، جیسا کہ اسیران کے اہل خانہ کی انجمن نے خبردار کیا ہے۔
 امریکہ کی حمایت، تل ابیب کے لیے سب سے بڑا پشت پناہ
اس جنگی جارحیت کے پیچھے سب سے اہم عنصر امریکہ کی براہِ راست حمایت ہے، خصوصاً ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں:
1. 2,000 پاؤنڈ وزنی MK-84 بموں کی ترسیل بحال کر کے اسرائیل کو شہری علاقوں پر وسیع بمباری کی اجازت دی گئی۔
2. ٹرمپ نے فلسطینیوں کو غزہ سے اردن اور مصر منتقل کرنے کی تجویز دی، جسے مبصرین "جبری مہاجرت” کا نام دیتے ہیں۔
3. ٹرمپ کے ایلچی اسٹیو وِٹکاف نے پہلے سے طے شدہ معاہدے کو نظرانداز کر کے نیا "امن منصوبہ” پیش کیا، جس میں حماس سے مزید قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا، حالانکہ یہ معاہدے کی روح کے منافی ہے۔
 اسرائیلی داخلی بحران اور نیتن یاہو کی سیاسی چالیں
سیاسی تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ نیتن یاہو اندرونی بحرانوں سے توجہ ہٹانے کے لیے جنگ کی جانب لوٹے ہیں،اسرائیلی عدلیہ، خفیہ اداروں اور اپوزیشن کے ساتھ کشیدگی، عوامی مظاہرے، اور پارلیمانی دباؤ نے انہیں شدت پسند جماعتوں کے سہارے حکومت بچانے پر مجبور کر دیا۔
ایتمار بن گویر جیسے شدت پسند وزراء کی واپسی اور جنگ کی حمایت دراصل نیتن یاہو کے اقتدار کو قائم رکھنے کی قیمت بن چکی ہے۔ سابق وزیرِاعظم ایہود اولمرت نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ نیتن یاہو اپنے اقتدار کے لیے سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہے، اور ہم داخلی جنگ کے دہانے پر ہیں۔
نتیجہ: جنگ بندی کی ناکامی اور ایک نیا بحران
مرحلہ اول میں قیدیوں کی رہائی کے بعد مرحلہ دوم میں اسرائیل کو غزہ سے پیچھے ہٹنا تھا، لیکن اس نے واضح طور پر انکار کر دیا،نیتن یاہو نہ صرف اپنے سیاسی مستقبل کو بچانے کے لیے جنگ کو جاری رکھنا چاہتے ہیں، بلکہ انہیں امریکہ کی مکمل پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ ایسے میں فلسطینیوں کے لیے انسانی بحران مزید شدید ہوتا جا رہا ہے، اور خطہ ایک نئے مرحلے کی جنگ کی طرف بڑھ رہا ہے۔

مشہور خبریں۔

یوکرین کے چار علاقوں کو روس کے ساتھ ملحق نہیں ہونے دیں گے: تل ابیب

?️ 1 اکتوبر 2022سچ خبریں:     صیہونی حکومت کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اعلان

عراق نے اردن سے اپنا سفیر واپس بلایا

?️ 21 اگست 2022سچ خبریں:    عراقی وزارت خارجہ کے ترجمان احمد الصحاف نے اعلان

سردارسلیمانی نے صیہونیوں اور امریکیوں کے منصوبوں کو ناکام بنایا :رامز الحلبی

?️ 5 جنوری 2023سچ خبریں:     سردار قاسم سلیمانی اور ابو مہدی المہندس کی شہادت

صیہونی فوجی غزہ نامی ایک بڑی گھات میں داخل

?️ 8 نومبر 2023سچ خبریں:Haaretz اخبار کے مطابق ایک ہفتے سے زیادہ زمینی پیش قدمی

مئی 2023 کے بعد سے ہفتہ وار مہنگائی 44.64 فیصد کی بُلند ترین سطح پر

?️ 19 جنوری 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) قلیل مدتی مہنگائی مئی 2023 کے بعد سے

فلسطینی مجاہدین کا قابض فوج کو خصوصی پیغام

?️ 8 نومبر 2023سچ خبریں: غزہ کی پٹی میں پیش قدمی کے بارے میں صہیونی

امریکہ کیسے مانے گا کہ یوکرین جنگ ہار چکا ہے؟

?️ 26 جولائی 2023سچ خبریں: امریکہ میں روس کے سفیر کا کہنا ہے کہ واشنگٹن

کیا اسرائیل کے ساتھ معمول بننا بن سلمان کے تخت کی ضمانت دے گا؟

?️ 6 جون 2022سچ خبریں:  یوکرین اور روس کے درمیان موجودہ بحران پر عالمی تفریح

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے