سچ خبریں: اگرچہ مغرب صیہونیوں کے پیچھے مضبوطی سے کھڑا ہے اور بغیر کسی خوف کے غزہ کے بے گناہ لوگوں کے خلاف شدید جرائم کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود مزاحمتی محاذ معجزانہ طور پر پھیل رہا ہے۔
صیہونی حکومت کی جنگی مشین غزہ کو خاک اور خون کے ڈھیر میں تبدیل کرنے کے بعد شکست کے کنارے پر کھڑی ہے اور رکنے کا ارادہ رکھتی ہے، تل ابیب کی نئی جنگ بندی کی منصوبہ بندی آج کل میڈیا میں زیر بحث ہے،یہ اس وقت ہے جب رفح، جو غزہ کے بے گھر لوگوں کے لئے پناہ گاہ ہے، تل ابیب کے نشانے سے محفوظ نہیں رہا اور صیہونیوں کا آخری پتا بھی کھل گیا لیکن وہ بازی نہیں پلٹ سکے۔
یہ بھی پڑھیں: مغربی کنارے کا انتفاضہ صیہونیوں کے لیے ڈراؤنا خواب
جنگ غزہ کے آغاز کو قریباً 240 دن گزر چکے ہیں اور 36 ہزار فلسطینیوں کو شہید اور 82 ہزار زخمی کرنے کے باوجود صیہونیوں کا مقصد پورا نہیں ہوا بلکہ اس کے بجائے مزاحمتی محاذ کا ظلم کے خلاف بنیادوں پر مبنی نظریہ وسیع ہوتا ہوا نظر آیا۔
آیت اللہ خامنہ ای نے امریکی طلباء کے نام اپنے خط میں ایک بہت اہم بات کی طرف توجہ دلائی کہ بہت سے عالمی ضمیر بیدار ہو چکے ہیں اور حقیقت آشکار ہو رہی ہے،مزاحمتی محاذ بھی مضبوط ہوا ہے اور مضبوط تر ہو گا نیز تاریخ بھی پلٹ رہی ہے۔
سید حسن نصراللہ کے حالیہ بیان، جس میں کہا گیا کہ آج مزاحمتی محاذ پہلے سے کہیں زیادہ بڑا، وسیع، جامع اور مضبوط ہو چکا ہے، اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے، سید مقاومت نے امریکی اور مغربی یونیورسٹیوں میں طلباء کی صیہونی جرائم کے خلاف احتجاجی تحریکوں کا حوالہ دیتے ہوئے، مزاحمتی محاذ کے مستقبل کو روشن اور فاتح قرار دیا اور کہا کہ اس معاملے میں صرف وقت کا مسئلہ ہے۔
مزاحمتی محاذ مضبوطی کی راہ پر
جبکہ مغرب صیہونیوں کے پیچھے مضبوطی سے کھڑا ہے اور تل ابیب کے رہنما اس حمایت پر بھروسہ کرتے ہوئے بغیر کسی خوف کے غزہ کے بے گناہ لوگوں کے خلاف شدید جرائم کر رہے ہیں، مزاحمتی محاذ معجزانہ طور پر پھیل رہا ہے، مزاحمتی تحریک کو ختم کرنے کے بہانے 8 ماہ سے صیہونی فوج نے اپنی تمام توانائی اور سامان غزہ کے لوگوں کے خلاف استعمال کیا ہے لیکن آج مغربی ممالک کے لوگوں کی زبان سے مزاحمتی محاذ کی حق طلبی پر مبنی آواز گونج رہی ہے۔
آج جبکہ صیہونی جرائم کی مذمت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں ویٹو ہو جاتی ہے، امریکی اور یورپی طلباء، بین الاقوامی اداروں اور اپنے ممالک کی ناکامی سے مایوس ہو کر خود غزہ کے لوگوں کی حمایت میں آواز اٹھا رہے ہیں۔
اگر اقوام متحدہ میں فلسطین کی مکمل رکنیت کی درخواست پر ویٹو ہوتا ہے تو عوامی دباؤ جنرل اسمبلی کو سلامتی کونسل سے مختلف راہ پر لے جائے گا اور ممالک کو فلسطین کی شناخت پر مجبور کرئے گا؛ یہ مسئلہ فلسطین کی حقیقت اور صیہونی قبضے کی بڑھتی ہوئی عالمی آگاہی کی نشاندہی کرتا ہے، کوئی بھی بائیڈن کے اس بیان پر توجہ نہیں دیتا کہ فلسطینی ریاست کو مذاکرات کے ذریعے بنانا چاہیے، یکطرفہ تسلیم کرنے سے نہیں!
گزشتہ ایک ماہ میں اسپین کے بعد آئرلینڈ کی حکومت نے بھی باضابطہ طور پر فلسطین کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ، اس کے بعد ناروے، اسلووینیا اور مالٹا نے بھی فلسطین کو تسلیم کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا ہے،فلسطین کی شناخت کی لہر جلد ہی دیگر یورپی ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔
سالوں سے مغربی طاقتیں جیسے امریکہ اور یورپی ممالک نے صیہونی حکومت کے لئے جعلی مقبولیت اور قانونی حیثیت پیدا کرنے اور غزہ کے اصل باشندوں کی غیر مہذب تصویر پیش کرنے کے لئے اپنی تمام طاقتوں کو متحرک کر رکھا ہے۔ اقوام متحدہ میں صیہونی حکومت کی مذمت کے لیے پیش کی جانے والی قراردادوں کو ہمیشہ امریکہ نے ویٹو کیا ہے،ہالی وڈ سالوں سے صیہونیوں کو اچھا دکھانے کے لئے کام کر رہا ہے،تل ابیب کو مالی اور اسلحے کی حمایت امریکی خارجہ پالیسی اور بہت سے مغربی ممالک کی مستقل پالیسیوں میں شامل ہے۔
پھر بھی فلسطین کے مسئلے پر عالمی عوامی رائے کو منصوبہ بند طریقے منظم کرنے کی استکباری تحریک کی کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔
درایں اثنا کئی سالوں سے اسلامی مزاحمتی تحریک کے مرکز کا نظریہ جو ایرانی قوم کی استبداد اور عالمی استکبار کے خلاف مقاومت کی ثقافت کی تخلیق ہے، نے نئی مزاحمت کی حکمت عملی سے مغربی اور عالمی صیہونی منافع کو مشرق وسطیٰ میں خطرے میں ڈال دیا ہے اور علاقائی طاقت کے توازن میں چیلنج پیدا کر کے استکباری پالیسیوں کے خلاف ایک طاقتور میکانزم میں تبدیل ہو چکا ہے۔
ایک تحقیقی مطالعے کے مطابق صیہونی عیسائی نظریہ منطقی اور تاریخی وجوہات کی بنا پر زوال پذیر ہے، بشمول دیگر انسانوں کے لئے نسل پرستانہ نظریہ، تجاوز اور قبضے کی منطق اور اپنے مشن کی انحرافی تشریح، جبکہ اسلامی مزاحمت کا نظریہ منفرد ثقافتی خصوصیات کے ساتھ ہژمون بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
مزاحمت کے نظریہ کے سلبی اور ایجابی عناصر عوامی رائے کو دنیا بھر میں اپنی طرف متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اس نظریہ کے سلبی پہلو میں، استبداد کے خلاف مزاحمت شامل ہے اور اس کے ایجابی پہلو میں اہم ترین تصورات انصاف طلبی، حق طلبی، امن پسندی، عزت طلبی، اقتدار، روحانیت اور مصلحت پسندی شامل ہیں۔
مظاہرین نے ترکی کے ذریعے صیہونی حکومت کو بجلی فراہم کرن والی آذربائیجان کی کمپنی سوکار کے دفتر کے سامنے جمع ہو کر ایک علامتی کارروائی کے طور پر غزہ کی پٹی میں اس حکومت کی خونریزی کو ظاہر کرنے کے لئے اس کمپنی کی دیواروں پر سرخ رنگ پھینکا، اس کی مشابہ بہت سی مثالیں موجود ہیں جو دنیا بھر میں حکومتوں کے صیہونیوں کے ساتھ تعاون کے خلاف عوامی بیداری کی نشاندہی کرتی ہیں، کچھ دن پہلے ہی برطانوی کارکنان نے صیہونی حکومت کو اسلحہ کی برآمدات کو روکنے کا مطالبہ کیا، جرمنی، امریکہ اور دیگر مغربی ممالک میں اسی طرح کے احتجاجات فلسطین کی حقیقت اور صیہونی قبضے کے خلاف عوامی بیداری کی نشاندہی کرتے ہیں۔
یہی مسئلہ، غزہ میں حماس گروپ کی کاروائیوں سے زیادہ، صیہونیوں اور ان کے بین الاقوامی حمایتیوں میں خوف اور غصے کو بڑھاتا ہے۔
یہ تحریک حالیہ دہائیوں میں مشرق وسطیٰ کے علاقے اور عالمی نظام میں اثرانداز رہی ہے اور اسلامی انقلاب کے نظریے سے متاثر ہو کر وسیع پیمانے پر مقبول ہوئی ہے، اسی بنا پر مزاحمتی محاذ کا نظریہ تیزی سے طاقتور ہو چکا ہے اور استکباری نظام کے ساتھ زیادہ سنجیدہ مقابلہ کرنے کے قابل ہو گیا ہے، عراق، شام، لبنان، فلسطین اور یمن جیسے ممالک میں استکباری نظام کے ساتھ مقابلہ چیلنجز کو تبدیل کر کے اور خطے میں استکباری ہژمونی کی شکست کا باعث بنا ہے۔
مزید پڑھیں: حزب اللہ کی انٹیلی جنس طاقت صیہونیوں کے لیے ڈراؤنا خواب
اس فکر کا عالمی ہونا اور اس آگاہی کا ناگزیر بڑھاؤ عالمی رجحانات کو مظلوم قوموں کے حق میں اور ظالموں کے خلاف تبدیل کرے گا،بہت سے بیدار ضمیر صحیح تاریخ کے جانب کھڑے ہوں گے اور مزاحمتی محاذ کا حصہ بن جائیں گے۔