سچ خبریں: اسرائیل کے النصیرات میں جرم کے صرف دو دن بعد، دو جنگی کابینہ کے اراکین اور ایک مرکزی کابینہ کے رکن کے استعفے نے صہیونی حکومت کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں
بنیامین نتن یاہو کے صہیونیوں کی فتح کے دعوؤں کے باوجود، صہیونی حکومت کی بنیادیں مکڑی کے جالے سے بھی زیادہ کمزور ہو گئی ہیں اور یہ قابض ریاست بربادی کے دہانے پر پہنچ چکی ہے،چند گھنٹوں کے وقفے میں استعفے پر استعفے نے اسرائیل کو لرزہ بر اندام کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: صہیونی مقبوضہ فلسطین سے کیوں فرار کر رہے ہیں؟
النصیرات میں صہیونیوں کے تاریخی جرم کے بعد، ریٹائرڈ جنرل اور جنگی کابینہ کے رکن بنی گانٹز نے استعفا دے دیا، ان کے بعد کابینہ کے دوسرے وزیر گادی ایزنکوٹ نے بھی وہی تنقید کرتے ہوئے استعفی دے دیا جو گانٹز نے نتن یاہو پر کی تھی، اس کے بعد ہلی ٹروپر نے بھی، جو گانٹز کے قریبی ساتھی ہیں، کابینہ سے استعفی دینے کا اعلان کیا۔
گانٹز نے اعلان کیا کہ نتن یاہو غزہ میں کامیاب حکمت عملی کے تعین میں ناکام ہیں اور فوری طور پر انتخابات کرانے چاہیے، نتن یاہو نے اپنے منافقانہ پیغام "بنی مت جاؤ، ابھی جانے کا وقت نہیں ہے” کے ذریعے انہیں روکنے کی کوشش کی، لیکن داخلی اختلافات اتنے گہرے ہیں کہ چند جذباتی پیغامات سے اس خیمے کو کھڑا نہیں رکھا جا سکتا۔
قومی اتحاد پارٹی کے رہنما بنی گانٹز کے جانے سے حالات تبدیل ہو گئے ہیں اور اب امید کی جا رہی ہے کہ نتن یاہو کے دائیں بازو کے اراکین تشدد کو بڑھاوا دیں گے، لیکن حالیہ چند ماہ کے واقعات نے ثابت کیا ہے کہ نتن یاہو اور ان کے ساتھیوں کے غلط تصور کے برخلاف، فلسطینی مظلوموں کے خلاف شدید ترین تشدد بھی کوئی فتح نہیں لائے گا اور حالات اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ یورپی ممالک بھی فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی بات کر رہے ہیں اور ماضی کی طرح صہیونی حکومت کی حمایت نہیں کر رہے ہیں۔
گادی ایزنکوت کے استعفے نے بھی صہیونی حکومت کی مشکلات کے نئے پہلوؤں کو روشن کیا ہے، انہوں نے اپنے استعفے کے خط میں زور دیا کہ نیتن یاہو جنگی مقاصد کو عملی جامہ پہنانے میں ناکام رہے ہیں اور موثر فیصلے نہیں لے سکے۔
ایزنکوت کا ماننا ہے کہ نیتن یاہو کی فیصلہ سازی میں ناکامی نے صہیونی حکومت کی قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال دیا ہے، دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ کابینہ کے اراکین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ قابض حکومت کی بقا خطرے میں ہے اور مظلوموں کا خون بہانا صہیونیت کے لیے اقتدار نہیں لایا بلکہ اس کی بقا کو نقصان پہنچایا ہے، ہلی ٹروپر نے بھی نتن یاہو پر حملہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ اتنے بے بس ہیں کہ جنگ کے خاتمے اور اسرائیلیوں کی آزادی کے بارے میں فیصلہ نہیں کر سکتے، اس لیے جلد از جلد انتخابات کرانے چاہیے۔
عالمی میڈیا میں استعفوں کی وسیع پیمانے پر گونج
بنی گانٹز اور دو دیگر چہروں کے استعفے پر خطے اور دنیا کے میڈیا میں وسیع پیمانے پر ردعمل دیکھنے کو مل رہا ہے، CNN کی بین الاقوامی سروس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جو بائیڈن کی ٹیم نے بارہا نتن یاہو سے جنگ ختم کرنے کے لیے منصوبہ پیش کرنے کو کہا ہے لیکن نتن یاہو نے واشنگٹن کی درخواستوں کو نظر انداز کیا ہے جس کی وجہ سے بائیڈن نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ نتن یاہو شاید جنگ کے طویل ہونے سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
CNN کے تجزیے کے مطابق 64 سالہ ریٹائرڈ جنرل اور سابق وزیر جنگ نے حماس کو ختم کرنے اور محاصرے والے علاقے میں متبادل حکومت قائم کرنے نیز پناہ گزینوں کی واپسی کا منصوبہ پیش کیا ہے، لیکن نتن یاہو جنگ کے سوا کچھ سوچنے کو تیار نہیں ہیں جبکہ اسرائیلی اخبار معاریو کے شائع کردہ سروے کے مطابق، گانٹز کی حمایت 42 فیصد ہے اور نتن یاہو کی حمایت صرف 34 فیصد ہے۔
NPR کے صحافی ڈینیئل اسٹرین کا کہنا ہے کہ نتن یاہو کے لیے حالات مشکل ہو گئے ہیں، گانٹز کے استعفے کی وجوہات کے بارے میں اسٹرین نے کہا کہ گانٹز کا ماننا ہے کہ نتن یاہو ہمیں حقیقی فتح تک پہنچنے سے روک رہے ہیں اور کئی ماہ کی جنگ کے بعد بھی کوئی نتیجہ حاصل نہیں کر سکے، گانٹز نے سنجیدگی سے نتن یاہو پر حملہ کیا اور افسوس کا اظہار کیا کہ اسرائیلی قیدیوں کی جان نتن یاہو کی سیاسی بقا سے جڑی ہوئی ہے۔
مایوسی اور مقابلہ
گانٹز کے استعفے سے نتن یاہو کے قدموں کے نیچے سے زمین نکل گئی اور اس وقت صہیونیوں میں مایوسی، نومیدی اور شکست کا احساس بڑھتا جا رہا ہے ، سب جانتے ہیں کہ کسی بھی سیاسی گروہ کے پاس غزہ کی جنگ کو ختم کرنے کے لیے کوئی واضح حکمت عملی نہیں ہے اور کوئی بھی شکست کو تسلیم نہیں کرنا چاہتا لیکن بظاہر گانٹز کے حامی جنرلز کے تھینک ٹینک نے کچھ اور منصوبہ بنایا ہے۔ وہ چند سروے سے حاصل کردہ معلومات کا استعمال کرتے ہوئے اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ابھی بھی گانٹز پر شرط لگائی جا سکتی ہے۔
صہیونی حکومت کی سیاسی توازنات کو سمجھنے والے سیاسی مبصرین کے خیال میں، گانٹز کے پاس اب ایک جیتنے والا پتا ہے اور وہ موسم خزاں کی ابتدائی انتخابات میں نیتن یاہو کو آسانی سے شکست دے سکتے ہیں۔
آخر میں، گانٹز کے جانے سے جو بائیڈن کے لیے بھی حالات مشکل ہو گئے ہیں کیونکہ گانٹز اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان معاہدے کے منصوبے کے سب سے بڑے حامی تھے اور انٹونی بلنکن نے حالیہ دوروں میں ہمیشہ اس بات پر زور دیا تھا کہ گانٹز کی حمایت سے جنگ کے خاتمے کا راستہ مل سکتا ہے اور امریکہ کے انتخابات بھی جو بائیڈن اور ڈیموکریٹس کے حق میں ختم ہو سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: اسرائیل اور امریکہ کے کمزور نکات سید حسن نصر اللہ کی زبانی
ایک اور موضوع جس پر امریکیوں اور گانٹز کے درمیان اتفاق تھا، اسرائیل اور سعودی عرب کے تعلقات کی بحالی تھی لیکن اب یہ معاملہ بھی عملاً ختم ہو چکا ہے اور صہیونی حکومت کے دائیں بازو کے شدت پسندوں کے جنگ اور تشدد پر اصرار نے بائیڈن اور ان کی ٹیم کو بھی مشکل میں ڈال دیا ہے۔