سچ خبریں:عدالتی نظام کے اختیارات میں اصلاحات کا متنازعہ منصوبہ مقبوضہ علاقوں میں سب سے بڑی سیاسی مہمات، سڑکوں پر مظاہروں اور عام ہڑتالوں کا باعث بنا۔
صیہونی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق عدالتی نظام کے اختیارات میں اصلاحات پر مبنی صیہونی کابینہ کا متنازعہ منصوبہ مقبوضہ علاقوں میں سب سے بڑی سیاسی مہم، سڑکوں پر مظاہروں اور عام ہڑتالوں کا سبب بنا ہے جس کے بعد نیتن یاہو کے خلاف اپنی مخالفت کا اظہار کرنے کے لیے ایک ہی رات میں 700000 سے زائد افراد سڑکوں پر آ گئے،ان مظاہروں میں موجود لوگوں میں موساد کے ماہرین، آرمی ریزرو فورسز اور یہاں تک کہ دائیں تحریک کے کچھ ارکان بھی شامل ہیں۔
واضح رہے کہ صیہونی ٹریڈ یونینوں نے بھی ایک بیان شائع کرتے ہوئے اعلان کیا کہ اگر یہ منصوبہ Knesset سے منظور ہوتا ہے تو وہ عام ہڑتال کا اعلان کریں گے، اس طرح نیتن یاہو کی تل ابیب میں کنیسٹ اور ایگزیکٹو برانچ کے اختیارات میں اضافہ کرنے کی کوشش ان کی حکومت کے خلاف ایک بے مثال اتفاق رائے کی تشکیل کا باعث بنی، مظاہرین کا خیال ہے کہ اگر عدالتی نظام کے اختیارات کابینہ کے حق میں کم کیے جائیں تو مذہبی دائیں بازو کی تحریکیں آسانی کے ساتھ بلا روک ٹوک اپنی مرضی چلا سکتی ہیں،دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ نیتن یاہو کے خلاف حالیہ مظاہرے مقبوضہ علاقوں میں سیکولر اور مذہبی صیہونی جماعتوں کے درمیان ایک طرح کا تنازعہ اور سڑکوں پر کیمپنگ ہیں۔
بعض ماہرین کا خیال ہے کہ یہ بل پیش کرنا نیتن یاہو کی طرف سے عدالتی نظام میں ان کے خلاف دائر مقدمات سے فرار کی کوشش ہے،ایک اور نقطہ نظر ہے جو اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ نیتن یاہو کا منصوبہ عدلیہ اور جمہوریت کی حفاظت کرنے والے اداروں کو کمزور نہیں کرے گا بلکہ یہ صیہونی اپوزیشن کو بائیڈن اور ڈیموکریٹس کی بالواسطہ حمایت ہے جو تل ابیب میں سڑکوں پر چلنے والی مہم کا سبب بنی ہے جس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ڈیموکریٹس واقعی نیتن یاہو کی حکومت کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں؟
امریکہ؛ ملزم نمبر ایک
صیہونی اخبار یدیوت احرونٹ کے مطابق بنیامین نیتن یاہو کے بیٹے یائر نیتن یاہو نے امریکی محکمہ خارجہ پر الزام کی انگلی اٹھائی اور اسرائیل میں مظاہروں کا ذمہ دار بائیڈن حکومت کو ٹھہرایا، ان کا خیال ہے کہ ڈیموکریٹک میڈیا مہم اور سڑکوں پر احتجاج کر کے کابینہ کے خاتمے کی تلاش میں ہیں، نیتن یاہو کے بیٹے نے مزید دعویٰ کیا کہ بائیڈن یہ کام ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی بحالی کے حق میں کر رہے ہیں! اس کے بعد انہوں نے امریکی کانگریس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس مسئلہ کا مقابلہ کریں۔
یائر کے ٹویٹر حملوں کا مقصد صرف امریکیوں پر تنقید کرنا نہیں تھا بلکہ شباک (اسرائیل کی داخلی سلامتی کی تنظیم) پر الزام لگا کر انہوں نے اس سکیورٹی تنظیم کو اپنے والد کے خلاف بغاوت میں شراکت دار سمجھا،ایسا لگتا ہے کہ ٹویٹس کے اس سلسلے کی اشاعت اور پھر اسے حذف کرنا اسرائیلی معاشرے کے حامیوں اور رائے عامہ کے لیے امریکہ اور ایران کو حالیہ واقعات کے اصل مجرموں اور فائدہ اٹھانے والوں کے طور پر متعارف کرانے کا غیر سرکاری اشارہ تھا۔
واضح رہے کہ امریکہ اور اسرائیل کے درمیان اسٹریٹجک اور گہرے تعلق کی نوعیت کسی ماہر یا سامعین سے پوشیدہ نہیں ہے،تاہم دونوں فریقوں میں کچھ حکمت عملی کے معاملات میں اختلافات ہیں، امریکی میڈیا نے ایک امریکی عہدیدار کے حوالے سے بتایا ہے کہ بائیڈن نے نیتن یاہو کے ساتھ فون کال میں عدالتی نظام میں اصلاحات کے قانون پر اپنی تشویش کا اظہار کیا، جسے حزب اختلاف نیتن یاہو کی بغاوت سے تعبیر کرتی ہے،واشنگٹن اور تل ابیب کے درمیان ایک اور متنازعہ معاملہ ایران کے جوہری معاملے کا مقابلہ کرنے کے طریقے میں اسرائیلی دائیں بازو اور امریکی ڈیموکریٹس کے درمیان شدید فرق ہے، ساتھ ہی، نیتن یاہو تہران کے خلاف سلامتی کونسل کی پابندیوں کی واپسی اور ایران کی فوجی-سکیورٹی تنصیبات پر حملے کے امکان کے لیے عالمی اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں،دوسری طرف ڈیموکریٹس سفارت کاری کے آپشن پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ (درحقیقت ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت کے ساتھ ساتھ خطے کے ممالک پر حملوں میں امریکہ کی ناکامیوں نے ایران کے خلاف فوجی آپشن کو امریکہ کی طرف سے صرف ایک پروپگنڈہ حربہ بنا دیا ہے) امریکہ اور اسرائیل کے درمیان فرق کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ کس طرح ایران کے جوہری معاملے سے نمٹنے کے لیے اوباما انتظامیہ کی گہری بات چیت جے سی پی او اے پوائنٹ تک پہنچنا تھی، دوسری جانب تل ابیب نے وائٹ ہاؤس میں موجود نیوکون کو اکسانے کے ذریعے ٹرمپ کے لیے 2015 کے معاہدے سے دستبرداری کی راہ ہموار کی۔
نیتن یاہو کی کابینہ کی مقبولیت میں کمی
صیہونی حکومت کے خلاف سڑکوں پر ہونے والے چند ہفتوں کے احتجاج کے بعد نیتن یاہو آخر کار پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوئے اور انہیں کابینہ کے کچھ ارکان جیسے کہ ایتمار بین گوئر کی شدید مخالفت کے باوجود عدالتی اصلاحات کے جائزے کے عمل کو جولائی تک ملتوی کرنا پڑا جو نیتن یاہو کو کافی مہنگا پڑا، اس کے لیے انہیں کابینہ کو گرنے سے بچانے کے لیے بین گوئر کی حمایت ضروری تھی لہذا انہوں نے اسے نیشنل گارڈ فورسز بنانے کی اجازت دی۔
قابل ذکر ہے کہ نیتن یاہو کی حکومت تازہ ترین پولز میں بائیں بازو کے اپنے حریفوں سے پیچھے رہ گئی ہے،صیہونی ٹی وی چینل 12 کی طرف سے کرائے گئے ایک سروے کے مطابق اگر انتخابات ہوتے ہیں تو یائر لاپڈ کی قیادت میں بائیں بازو اتحاد کی نشستوں کی تعداد 61 ہو جائے گی جبکہ نیتن یاہو نمایاں کمی کے ساتھ 54 سیٹوں تک پہنچ جائیں گے، کان چینل کے سروے میں، اسرائیلی اپوزیشن مشترکہ عرب فہرست میں شرکت کے بغیر کنیسٹ کی 62 نشستیں جیتنے میں کامیاب رہے گی۔
دریں اثنا حکمران کابینہ کا حصہ صرف 53 نشستوں کا ہوگا، سروے میں شائع ہونے والے اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ نیتن یاہو کی کابینہ کی مقبولیت ان کی کابینہ کے کام کے آغاز کے بعد سے اب تک کم ترین سطح پر پہنچ چکی ہے اور اگر قبل از وقت انتخابات کرائے جاتے ہیں تو دائیں بازو کی جماعتوں کو کامیابی حاصل کرنے اور کنیسٹ سیٹوں کی اکثریت حاصل کرنےے کا زیادہ موقع نہیں ملے گا، ایسے میں نیتن یاہو کے بیٹے کا دعویٰ ہے کہ ڈیموکریٹس اسرائیل کے اندر اپوزیشن کے ساتھ قریبی تعاون کرتے ہوئے کابینہ کے خاتمے اور اپنی حامی حکومت کے قیام کے خواہاں ہیں،
خلاصہ
اسرائیل میں حالیہ سڑکوں پر ہونے والے مظاہروں کو نیتن یاہو کی زیر قیادت مذہبی صہیونیت اور بائیں بازو کی تحریک کی قیادت والے مغربی رجحان کے درمیان تصادم بھی سمجھا جاتا ہے،اس مہم میں بائیڈن حکومت دیگر جمہوری حکومتوں کی طرح مغربی اقدار کے فروغ کو واشنگٹن کے لیے شرط سمجھتی ہے اور سیکولرز کے سامنے کھڑی ہوگی،یقیناً اس مسئلے کا مطلب قومی سلامتی یا مشرق وسطیٰ کی پالیسی کے تزویراتی معاملات میں امریکہ کے ساتھ ہم آہنگی کی کمی نہیں ہے۔