سچ خبریں: فلسطینی مزاحمتی گروپوں کے راکٹ حملوں اور غیر مستحکم معاشی حالات جیسے ٹیکسوں میں اضافہ، بیروزگاری اور غربت کی وجہ سے عدم تحفظ کا احساس اور سکیورٹی خدشات مقبوضہ علاقوں سے الٹی ہجرت کی اہم وجوہات میں سے ہیں۔
صیہونی حکومت کے قیام کے فلسفے کا اظہار اس کے بانیوں کے الفاظ سے ہوا ہے، دنیا بھر سے یہودیوں کی مقبوضہ سرزمین کی طرف کشش۔ صیہونی حکومت کے پہلے وزیر اعظم بن گورین نے دنیا کے یہودیوں کی سرزمین فلسطین کی طرف ہجرت کرنے کی ضرورت کے بارے میں کہا کہ فلسطین کی طرف ہجرت اس خون کی مانند ہے جو اسرائیل کی بقا اور اس کی سلامتی اور مستقبل کی ضمانت دیتا ہے،انہوں نے یہودیوں کی امیگریشن کی سکیورٹی وجوہات کا بھی ذکر کیا کہ ہم نے زمینوں پر قبضہ کر لیا ہے لیکن یہودیوں کی آباد کاری کے بغیر ان کی کوئی حقیقی قیمت نہیں ہوگی،رہائش اصل فتح ہے۔
یہ بھی پڑھیں: صہیونیوں نے مقبوضہ فلسطین سے واپسی کا سفر کیوں سوچا؟
درحقیقت آبادی کا مسئلہ پوری دنیا میں صیہونیوں کے لیے ہمیشہ اہم اور بنیادی سمجھا جاتا ہے،کیونکہ آبادی کے بغیر صیہونی حکومت بے معنی ہے،اس مقصد کے حصول کے لیے صیہونیوں نے گذشتہ برسوں میں مقبوضہ علاقوں میں ہجرت کرنے والوں کو اقتصادی اور معاشی صورتحال کی بہتری اور ایک مثالی زندگی کے حصول کے وعدے دے کر اپنے اسٹریٹجک اہداف کو حاصل کرنے کی کوشش کی ہے، ان اقدامات کے باوجود، حالیہ برسوں میں، مقبوضہ علاقوں کی طرف نقل مکانی کے اعدادوشمار میں نہ صرف ڈرامائی کمی واقع ہوئی ہے بلکہ الٹی ہجرت میں اضافے کے ساتھ یہ حکومت اپنے آپ کو خطرے میں پاتی ہے۔
تل ابیب میں ERI ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے دو ماہ قبل ایک مطالعہ شائع کیا تھا جس میں لکھا تھا کہ یہودی نوجوانوں کا حکومت اور اس کے اداروں پر اعتماد بہت کم ہوا ہے،اس ادارے کی رپورٹ کے مطابق جب کہ 2022 میں 18 سے 44 سال کی عمر کے 66 فیصد نوجوانوں نے کہا کہ اگر ممکن بھی ہو تب بھی وہ اسرائیل نہیں چھوڑیں گے، یہ شرح 2023 میں 46 فیصد تک پہنچ گئی اور ان نوجوانوں میں سے 54 فیصد نے کہا کہ وہ ہجرت کے امکان کو عملی طور پر جانچنا چاہیں گے۔
مقبوضہ فلسطین سے آباد کاروں کی الٹی ہجرت کی کئی وجوہات ہیں۔ فلسطینی مزاحمتی گروپوں کے راکٹ حملوں کی وجہ سے عدم تحفظ ، سلامتی کے خدشات ، ٹیکسوں میں اضافہ، بے روزگاری اور غربت، طبقاتی تفریق اور واضح امتیاز جیسے افراتفری کے معاشی حالات مقبوضہ علاقوں سے الٹی ہجرت کی بنیادی وجوہات ہیں۔
اس دوران سلامتی کا بحران اسرائیل میں معکوس نقل مکانی میں اضافے کا ایک اہم سبب ہے،سلامتی زندگی اور ہجرت کی پہلی شرط ہے،شہریوں کا تحفظ ہی استحکام، انسانی اور معاشی ترقی کا راستہ فراہم کرتا ہے،سکیورٹی کی عدم موجودگی میں ترقی اور پیشرفت کی کوئی امید نہیں ہے،صیہونیوں کی فلسطین کی طرف ہجرت بھی بظاہر امن، آرام، معاشی ترقی اور سرمائے میں اضافے کے حصول کی وجہ سے تھی، جو بالآخر ان کے طویل المدتی سکونت کا باعث بنی لیکن اب وہ جان چکے ہیں کہ ان بہانوں سے امن حاصل نہیں ہو گا۔
صہیونی تحریک کے عظیم نعروں اور مقاصد میں سے ایک دنیا کے تمام یہودیوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ بنانا تھا، تاہم ہرتزل کے خیال کے برعکس، جس کا خیال تھا کہ نئی ریاست کے قیام کے ساتھ ہی یہودیوں کے لیے ایک محفوظ وطن پیدا ہو جائے گا، ایک محفوظ وطن ابھر کر سامنے نہیں آیا اور اسرائیل 21ویں صدی میں مطلوبہ تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔
درحقیقت، بڑھتا ہوا عدم تحفظ اسرائیلیوں کی ایک اہم تشویش رہی ہے، خاص طور پر حالیہ برسوں میں،جن تارکین وطن کو اسرائیل آکر ایک اچھی اور خوشحال زندگی گزارنی تھی، اب انہیں سکیورٹی جیسی پہلی انسانی ضرورت میں خلاء کا سامنا ہے، دوسری طرف تل ابیب کی جنگی پالیسیوں سے تارکین وطن کو زیادہ سے زیادہ مایوسی اور ناامیدی کا سامنا کرنا پڑا ہے جس کے بعد وہ دوسرے ممالک میں جانے کو ترجیح دیتے ہیں۔
پچھلی دو دہائیوں کے دوران، اسرائیل کو غیر مستحکم امن ،اندرونی انتشار، غیر مستحکم اور غیر محفوظ صورت حال کا سامنا ہے،اس حوالے سے مقبوضہ زمینوں میں مقیم کئی آباد کار مسلسل بے چینی اور بدامنی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں،مزاحمتی تحریکوں کے زور پکڑنے سے اسرائیلی اپنے مستقبل سے زیادہ خوفزدہ ہیں اور یہ عنصر اسرائیل کے وجود کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
اس سرزمین میں میزائل ڈیفنس شیلڈ اور آئرن ڈوم سسٹم نصب کر کے اسرائیلی حکام نے مقبوضہ سرزمین کو یہودیوں کے لیے محفوظ ترین سرزمین بنانے کا ارادہ کیا لیکن جب یہ منصوبہ ناکام ہو گیا اور حماس اور حزب اللہ کے راکٹ صیہونی بستیوں پر گرے تو اسرائیل سے معکوس ہجرت میں شدت آئی جو آج بھی جاری ہے۔
سنہ 2006 میں حزب اللہ اور صیہونی فوج کے درمیان تنازعہ اور مقبوضہ فلسطین کے قلب میں موجود اہداف پر راکٹ داغے جانے کے بعد، داخلی سلامتی کے حوالے سے آباد کاروں کا رویہ تبدیل ہو گیا اور الٹی ہجرت اس حکومت کے اہم مسائل میں سے ایک بن گئی،سنہ 2012 میں غزہ کے خلاف اسرائیل کی 8 روزہ جنگ نے بھی صہیونیوں میں مقبوضہ علاقوں میں سلامتی سے متعلق پہلے کی نسبت زیادہ شکوک و شبہات پیدا کیے،یہ پہلا موقع تھا کہ غزہ کی پٹی کے فلسطینی علاقوں کے اندر سے صہیونی شہروں پر حملہ کیا گیا،حماس نے غزہ میں 51 روزہ جنگ میں پہلی بار 130 کلومیٹر تک مار کرنے والے میزائلوں کا استعمال کیا اور اپنے حملوں کے دوران وہ بین گورین ہوائی اڈے کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہی، جو ڈیمونا پاور پلانٹ ،صیہونی حکومت کے وزیر اعظم ہاؤس اور Knesset کی عمارت کے قریب واقع ہے۔
اسرائیل کے وی چینل2 کی جانب سے 51 روزہ جنگ کے بعد کیے گئے سروے کے نتائج سے معلوم ہوا ہے کہ 30 فیصد صہیونی مقبوضہ علاقوں سے ہجرت کرنے کا سوچ رہے ہیں،درحقیقت تاریخی رجحانات سے پتہ چلتا ہے کہ جب بھی اسرائیل میں عدم تحفظ کی سطح میں اضافہ ہوا ہے ریورس مائیگریشن میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 2023 کی پہلی ششماہی میں مغربی کنارے، مقبوضہ بیت المقدس اور 1948 کے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینی مزاحمتی کارروائیوں میں 28 صہیونی فوجی اور آباد کار مارے گئے،طوفان الاقصیٰ آپریشن کے بعد یہ بات واضح ہو گئی کہ صہیونی مقبوضہ سرزمین کے مکینوں کو تحفظ فراہم کرنے سے قاصر ہیں، اس مسئلے نے الٹی ہجرت کے عمل کو اس حد تک نمایاں کر دیا ہے جہاں اس آپریشن کے آغاز سے ہی صیہونی حکومت کے ہوائی اڈے ان لوگوں سے بھرے ہوئے تھے جو اسرائیل کو چھوڑنے کے لیے قطار میں کھڑے تھے،اس کے علاوہ غزہ میں کشیدگی کی نئی لہر کے آغاز کے بعد دیگر ممالک کے کچھ شہری جو مقبوضہ علاقوں میں مقیم تھے، کو ان کے متعلقہ ممالک نے حالیہ دنوں میں مقبوضہ علاقوں سے نکال لیا ہے۔
حزب اختلاف کے رہنما اور اسرائیل کے سابق وزیر اعظم Yair Lapid نے حال ہی میں کہا تھا کہ اسرائیل محفوظ جگہ نہیں ہے، غزہ کی موجودہ جنگ میں دستیاب تازہ ترین اعدادوشمار کے مطابق 1538 سے زیادہ اسرائیلی مارے جا چکے ہیں جبکہ 5431 اسرائیلی زخمی ہوئے ہیں اور کم از کم 242 اسرائیلیوں کو فلسطینی مزاحمتی گروپوں نے گرفتار کر لیا ہے ،طوفان الاقصی آپریشن نے اس حکومت پر صیہونیوں کے عوامی اعتماد کو ختم کر دیا ہے کیونکہ یہ بات یقینی ہو گئی ہے کہ یہ حکومت صیہونیوں کو تحفظ فراہم نہیں کر سکتی۔
سلامتی کے بحران کے علاوہ اقتصادی بحران ہمیشہ معکوس نقل مکانی کے لیے ایک مضبوط محرک پیدا کرتا ہے اور اس زمرے کو صیہونی حکومت کے باشندوں کی نظر میں خاص اہمیت حاصل ہے،حالیہ برسوں میں ٹیکسوں میں اضافے اور آمدنی میں کمی نے صیہونیوں بالخصوص معاشرے کے متوسط طبقے کی زندگیوں پر منفی اثرات چھوڑے ہیں اور یہ ایسی حالت میں ہے جب صیہونی شہریوں کو صیہونی حکومت کی امتیازی پالیسیوں کا سامنا ہے۔
حالیہ برسوں میں صیہونی حکومت کی اقتصادی کمزوری کی وجہ سے معکوس نقل مکانی میں بھی تیزی آئی ہے، درحقیقت وہ تارکین وطن جو بڑے بڑے وعدوں کی لالچ میں مقبوضہ سرزمین پر آئے تھے اب سکیورٹی اور معیشت کے بڑھتے ہوئے مسائل کے ساتھ فرار ہو رہے ہیں اور مقبوضہ سرزمین سے دوسرے ممالک بالخصوص جرمنی اور امریکہ کی طرف ہجرت کا سلسلہ جاری ہے۔
بلاشبہ غزہ کی موجودہ جنگ کے بعد اسرائیل سے ریورس ہجرت کا رجحان مزید بڑھے گا،اسرائیلی وزارت محنت نے گزشتہ ہفتے ایک سرکاری بیان میں اعلان کیا تھا کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن کے 26 دنوں کے اندر 760000 سے زائد اسرائیلی شہری اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے،اس بیان میں کہا گیا ہے کہ حماس کے اسرائیل پر حملے کے 26 دن بعد 18 فیصد افرادی قوت اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھی، اور اس جنگ کی وجہ سے بہت سے کاروبار بند ہو گئے، خاص طور پر اسرائیل کے شمال اور جنوب میں۔
اسرائیل کی وزارت محنت نے یہ بھی کہا کہ 276000 ریزروسٹ جنہوں نے اپنی ملازمتیں چھوڑی ہیں اس وقت بے روزگار ہیں جبکہ جنوب میں اور لبنان کی سرحد کے ساتھ ساتھ 127000 کارکنان ان علاقوں کو چھوڑنے پر مجبور ہیں،اس بیان کے مطابق 70% ملازمین کو بلا معاوضہ چھٹی پر رکھا گیا اور باقی کو ہمیشہ کے لیے نوکریوں سے نکال دیا گیا۔
اس سلسلے میں ایک اسرائیلی نژاد امریکی تاجر Mordechai Kahna نے حال ہی میں کہا ہے کہ انہیں صیہونیوں کی طرف سے مقبوضہ علاقوں سے ہجرت کرنے میں مدد کے لیے درجنوں درخواستیں موصول ہوئی ہیں، خاص طور پر ان لوگوں کی طرف سے جو چھوٹی ٹیکنالوجی کمپنیاں چلاتے ہیں اور اپنے دفاتر امریکہ منتقل کرنا چاہتے ہیں۔
مزید پڑھیں: جبر اور عدم مساوات صہیونیوں کی معکوس ہجرت کو تیز کرنے کے اسباب
آخر میں یہ واضح رہے کہ جہاں اسرائیل پوری دنیا سے یہودیوں کی ایک قابل ذکر تعداد کو راغب کرنے کے لیے سرگرم عمل ہے،وہی اس ریاست کے اندر سے امیگریشن کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ سکیورٹی کے بحران کی شدت کے ساتھ، امیگریشن کے درخواست دہندگان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
درایں اثنا صیہونی حکومت میں صیہونیت کی تشکیل اور مضبوطی کا عمل دو بنیادی اصولوں پر مبنی تھا، یعنی فلسطینی زمینوں پر قبضہ اور پوری دنیا سے صیہونیوں کی اس سرزمین کی طرف ہجرت،اس لیے معکوس ہجرت ایک ایسے رجحان کے طور پر جو صیہونی فکر کے فلسفے کی اہم ترین بنیادوں کو شدید دھچکا دیتی ہے، مستقبل میں صیہونی حکومت کے لیے ایک اہم خطرہ بن سکتی ہے۔