سچ خبریں: سوشل میڈیا لوگوں کی زندگیوں کو بدلنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، یہ خاص طور پر مقبوضہ فلسطین کے لوگوں اور غزہ کے باشندوں کے لیے بھی ہے،فلسطینیوں کے لیے سوشل میڈیا ان کی محصور سرزمین سے باہر کی دنیا کے ساتھ رابطہ کرنے کے لیے ایک پل ہے۔
چونکہ غزہ کی پٹی میں جنگ جاری ہے، سوشل میڈیا غزہ کے لوگوں کی آواز کو دنیا تک پہنچانے کے لیے ایک لائف لائن ہے لیکن سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے صیہونی حکومت کی حمایت کرتے ہوئے اپنے صارفین پر پابندیاں عائد کر دیں،غزہ سے معلومات حاصل کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے اس لیے کہ وہاں انٹرنیٹ اور بجلی کی خدمات بھی منقطع کر دی گئی ہیں،جمعہ 20 اکتوبر کو صیہونی حکومت نے غزہ کی انٹرنیٹ تک رسائی کو منقطع کرنے کا اعلان کیا۔
یہ بھی پڑھیں: میڈیا اور غزہ جنگ کی غبار؛کیمروں سے مارے جانے والے فلسطینی
فلسطینی عوام کے حامیوں کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، خاص طور پر انسٹاگرام، جو کہ غزہ میں رابطے کا ایک اہم ذریعہ ہے، یا تو اپنے مواد پر سایہ ڈالتے ہیں یا الگورتھم کی بنیاد پر پوسٹس کو ترجیح دیتے ہیں جو اسے تلاش کرنا مشکل بنا دیتا ہے۔
میٹا (انسٹاگرام کا مالک)، اس واقعے کے ہونے کی تردید کرتے ہوئے، ان مسائل کو ایک خامی قرار دیتا ہے لیکن یہ رجحان اس پلیٹ فارم پر برسوں سے موجود ہے جو اس طرح کے دیگر واقعات میں دہرایا جاتا رہا ہے۔
انسٹی ٹیوٹ فار فلسطین اسٹڈیز میں ڈیجیٹل اسٹریٹجی کی سینئر ایڈیٹر لورا البسٹ اس بات پر زور دیتی ہیں کہ فریق اول کے اکاؤنٹس کو جمع کرنا اور دستاویزی بنانا نیز لائیو اپ ڈیٹ فراہم کرنا ان کے کام کے لیے ضروری ہے، ان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم مجھے ایسا کرنے کی اجازت دیتے ہیں لیکن بدقسمتی سے جیسا کہ بہت سے محققین، صحافی اور خاندان دستاویزات اور تحقیقات کے لیے سوشل میڈیا پر انحصار کرتے ہیں، ہم نے ٹینکالوجی کے عظیم ہیولے پر بھروسہ کیا۔
سینئر محقق اور ہیومن رائٹس واچ مہم میں ڈیجیٹل رائٹس کی وکیل ڈیبورا براؤن کہتی ہیں کہ یہ پابندیاں اپنے پیاروں سے رابطہ کرنے، ادویات، خوراک، محفوظ راستے تلاش کرنے کے بارے میں اہم معلومات حاصل کرنے کو بھی بہت محدود بنا دیتی ہیں نیز صحافیوں اور انسانی حقوق کی نگرانی کرنے والوں کی دستاویزات میں خلل ایجاد کرتی ہیں۔
میٹا نے جمعرات کو اعلان کیا کہ اس نے تنازع کے پہلے تین دنوں میں اپنے مختلف پلیٹ فارمز پر 795000 عربی اور عبرانی پوسٹس کو حذف کیا نیز انسٹاگرام پر کئی ہیش ٹیگز پر پابندی لگا دی، نیز اس کمپنی نے حماس کی حامی بہت سے فیس بک اور انسٹاگرام اکاؤنٹس کو سنسر یا معطل کیا ، اس طرح صارفین کو مواد پوسٹ کرنے اور شیئر کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ بہت سے صارفین اب شکایت کر رہے ہیں کہ میٹا نے جانبدارانہ کام کیا ہے، ان کی پوسٹس تک رسائی کو کم کر کے فلسطین کی حامی آوازوں کو دبایا ہے،اگرچہ وہ پلیٹ فارم کے اصولوں کو نہ بھی توڑیں تب بھی ان کے اکاؤنٹ بند ہو جاتے ہیں۔
فلسطینی مواد کی ڈیجیٹل خلاف ورزیوں کی نگرانی اور دستاویز کرنے کے مرکز، صدا سوشل کے مطابق، غزہ کے خلاف اسرائیل کی جنگ کے آغاز سے، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نے فلسطینی مواد کو ہٹانے کے لیے اسرائیلی پراسیکیوٹر کے دفتر سے 4450 درخواستوں کا جواب دیا ہے۔ مرکز نے سمندر سے دریا تک جیسے بیانات کا حوالہ دیا جنہیں میٹا پلیٹ فارمز یہود دشمنی قرار دیا گیا ہے۔
سوشل میڈیا کے انداز میں قتل
Shadow_bannig کو سوشل نیٹ ورکس میں ثابت کرنا مشکل ہے، لیکن پوری دنیا کے صارفین کہتے ہیں کہ کوئی بھی پوسٹ جس میں فلسطینی مواد ہو یا غزہ کا تذکرہ کیا گیا ہو، اسے ملاحظات اور تعاملات کم حاصل ہوتے ہیں۔
کچھ معاملات میں، انسٹاگرام صارفین کو دوسری پوسٹس پر تبصرہ کرنے کی اجازت نہیں تھی، اور ایک پیغام میں لکھا تھا کہ ہم اپنی کمیونٹی کی حفاظت کے لیے کچھ سرگرمیوں کو محدود کرتے ہیں،آپ کے استعمال کی بنیاد پر، یہ عمل آپ کو (…) تک دستیاب نہیں ہوگا،اگر آپ کو لگتا ہے کہ ہم سے غلطی ہوئی ہے تو ہمیں بتائیں۔
نیویارک میں مقیم ایک فنکار اور مصنف مولی کریبپل نے ٹی وی نیوز پروگرام ڈیموکریسی ناؤ کی ایک پوسٹ شیئر کی ہے جس میں اسرائیل کی طرف سے مغربی کنارے میں آباد کاروں کو ہتھیاروں کی تقسیم کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ایک دن کے اندر، اسے ایک انتباہ موصول ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ آپ کا اکاؤنٹ پیروکاروں کے علاوہ کسی اور کو نہیں دکھایا جا سکتا، اس انتباہ میں یہ کہا گیا تھا کہ اس کا اکاؤنٹ ایکسپلور، سرچ، تجویز کردہ صارف، ریلز وغیرہ میں ظاہر نہیں ہو گا،کریبپل کہتے ہیں کہ یہ معلومات کو سنسر کرنے کی ایک خطرناک کوشش ہے۔
19 اکتوبر کو، انسٹاگرام نے فلسطینی صارفین کی اپنی لکھی ہوئی بائیو میں لفظ دہشت گرد شامل کرنے پر معذرت کی،میٹا پر اس سے قبل 2021 میں فلسطینی مظاہرین کے ساتھ صیہونی پولیس کی پرتشدد جھڑپوں کے دوران شیڈو_بانینگ کے ذریعے فلسطینی آوازوں کو سنسر کرنے کا الزام لگایا گیا تھا،بعد میںایک آزاد رپورٹ میں پتہ چلا کہ اس پلیٹ فارم نے عربی مواد کو عبرانی میں مواد سے زیادہ محدود کیا ہے۔
مغربی کنارے میں مقیم ڈیجیٹل حقوق کی ماہر تحریر انسٹی ٹیوٹ فار مڈل ایسٹ پالیسی کی فیلو مونا شتایا کہتی ہیں کہ اگرچہ یہ رجحان کوئی نیا نہیں ہے، لیکن کشیدگی کے بڑھتے ہوئے لمحات میں یہ ایک سنگین مسئلہ بن جاتا ہے، ان کا کہنا ہے کہ یہ کیوں تکنیکی خرابیاں صرف اسی وقت کیوں ہوتی ہیں جب فلسطین میں کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے؟ اس لیے کہ فلسطینی مواد پر بہت زیادہ سنسر شپ ہے۔
برسوں سے جاری سنسر شپ
انسٹی ٹیوٹ فار فلسطین اسٹڈیز نے اپنی ایک رپورٹ میں تصدیق کی ہے کہ فلسطینی مواد کی ڈیجیٹل خلاف ورزی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے،
2016 میں تقریباً 200 فلسطینی صفحات اور اکاؤنٹس کو نشانہ بنایا گیا، خاص طور پر مغربی کنارے اور بیت المقدس میں چاقو مانے کارروائیوں کے دوران،یوٹیوب اور فیس بک پر 2017 میں خلاف ورزیاں بڑھ کر 280 ہوگئیں جن میں پابندیاں، اکاؤنٹ بند کرنا اور صفحہ ہٹانا شامل ہیں۔
2018 تک مرکز نے فلسطینی مواد کے خلاف 500 خلاف ورزیاں درج کیں، خاص طور پر وہ جو صحافیوں نے فیس بک پر پوسٹ کی ہیں، 2019 میں خلاف ورزیوں کی تعداد بڑھ کر 1000 سے زیادہ ہو گئی، جن میں سے 950 فیس بک پر ہوئیں، ان خلاف ورزیوں میں ذاتی صفحات اور اکاؤنٹس کو ہٹانا، معطل کرنا، یا پابندی لگانا شامل ہے، اکثر مخصوص اصطلاحات جیسے حماس،جہاد،شہید وغیرہ کو سنسرشپ کے بہانے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
غزہ کی آواز کو سوشل میڈیا صارفین تک پہنچانے کے طریقے
فلسطین کے حامیوں کو غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی جنگ کے بارے میں مواد کو آزادانہ طور پر اظہار کرنے اور شیئر کرنے میں سوشل میڈیا پر رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن یہ پابندیاں انہیں ان متعصب الگورتھم کو روکنے کے لیے حکمت عملی تلاش کرنے سے نہیں روکتی ہیں،غزہ میں فلسطینی شہریوں کے خلاف اسرائیلی افواج کی طرف سے روزانہ کیے جانے والے ہولناک جرائم کی بڑے پیمانے پر مذمت کی جا رہی ہے ، دنیا بھر میں بہت سے لوگ فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کرنے اور اسرائیل کے جرائم کو دنیا کے سامنے لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: حقیقت کے قلب میں گولی
سوشل میڈیا الگورتھم اور پلیٹ فارم کے رہنما خطوط نے فلسطینی حامیوں کی آن لائن سرگرمیوں میں رکاوٹ ڈالی ہے جس کے بعد کچھ صارفین نے اس مسئلے کو حل کرنے کے بارے میں تجاویز پوسٹ کرنا شروع کر دی ہیں۔ چونکہ اس ماہ اسرائیل اور فلسطینی مزاحمتی قوتوں کے درمیان خونریز تنازعہ جنگ میں بدل گیا، سوشل میڈیا پر فلسطینی مواد کے حامی تخلیق کاروں نے ان کی پوسٹس کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے دبائے یا ہٹائے جانے سے بچنے کے لیے تیزی سے الگو اسپیک یعنی ہے یعنی فقروں، خصوصی املا اور کوڈ الفاظ کے استعمال کا سہارا لیا ہے۔