?️
سچ خبریں: نومبر 2024 میں پہلی بار امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ایلن مسک اور ویوک راماسوامی "ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیکٹیو نیس” (DoGE) کے نام سے ایک محکمے کی قیادت کریں گے۔
واضح رہے کہ یہ منصوبہ، جو بڑے پرجوش دعووں کے ساتھ شروع ہوا، کا بنیادی مقصد سرکاری وسائل میں بچت اور اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانا تھا۔ تاہم، راماسوامی کے استعفیٰ کے بعد، ٹیکنالوجی کے شعبے میں اپنے منصوبوں کی وجہ سے شہرت رکھنے والے اور دنیا کے امیر ترین افراد میں شامل ایلن مسک نے اس اسکیم کی باگ ڈور سنبھال لی۔ منصوبے کے منشور کے مطابق، سرکاری اخراجات میں بچت، محکموں کی نظرثانی، معاہدوں اور طریقہ کار کو دوبارہ مرتب کرکے 18 ماہ کے عرصے میں 2 ٹریلیئن ڈالر کی بچت کا ہدف رکھا گیا تھا۔
ٹرمپ انتظامیہ کے باقاعدہ طور پر اقتدار سنبھالنے کے بعد، DOGE نے "سرکاری اداروں کو چھوٹا کرنے کے حامی انقلابی اشرافیہ” کو بلا کر غیر رسمی طور پر کام شروع کیا، جو بغیر معاوضے کے کام کرنے کے لیے تیار تھے۔ اس دوران کئی اداروں کو ضم کرنا، معاہدوں کو منسوخ کرنا، مختلف سرکاری محکموں کی کارکردگی کا جائزہ لینا، اور سرکاری ملازمین کے لیے کام کے اوقات میں اضافہ اور سخت قواعد لاگو کرنا شامل تھا۔
دوسری جانب، منصوبے کا مقصد مصنوعی ذہانت کے چٹ بٹس جیسی ٹیکنالوجیز کے ذریعے ڈیٹا کا تجزیہ کرنا، سرکاری نظاموں کی کارکردگی کو بہتر بنانا، ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کو مضبوط کرنا، اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے بدعنوانی کے خلاف جنگ کرنا تھا۔ لیکن یہ منصوبہ توقع سے بہت جلد ختم ہوگیا، اور اس کے نتائج ابتدائی تخمینوں سے کوسوں دور تھے۔ رپورٹس کے مطابق، اس عرصے میں صرف 175 ملین ڈالر کی بچت ہوئی، جسے کئی حلقوں نے مصنوعی قرار دیا، اور اصل رقم اس سے بھی کم بتائی گئی۔
سوال: آخر کیوں ناکام ہوا DOGE؟
اس منصوبے کی ناکامی کے دو اہم پہلو ہو سکتے ہیں: تاریخی اور ادارہ جاتی۔ تاریخی نقطہ نظر سے، جدید دور میں ریاستی اداروں کا پھیلاؤ ایک اہم موڑ رہا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اداروں کی مضبوطی حکمرانی کی بنیاد ہے، لیکن DOGE نے اس اصول کو نظرانداز کیا۔ ایلن مسک، جو ایک کاروباری شخصیت ہیں، نے اپنی دولت اور تجارتی کامیابیوں کی بنیاد پر سرکاری نظام میں تبدیلی کی کوشش کی، جس پر سرکاری ملازمین اور افسران کی طرف سے شدید مزاحمت ہوئی۔ ان کا غیر رسمی رویہ اور سرکاری اصولوں سے انحراف بھی تنازعات کا باعث بنا۔
ادارہ جاتی نقطہ نظر سے، مازوکاٹو (2013) کی کتاب "دی انٹرپرینیوریل اسٹیٹ” کے مطابق، کامیاب حکومتیں نئی ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری کرکے اور بازار تشکیل دے کر ترقی کرتی ہیں۔ لیکن DOGE منصوبے میں سرکاری اداروں کو رکاوٹ سمجھا گیا، جس کی وجہ سے درج ذیل مسائل پیدا ہوئے:
1. مستحکم ادارہ جاتی ڈھانچے کی کمی: DOGE عارضی ڈھانچے پر کام کرتا رہا، جس میں نگرانی اور اصلاح کی گنجائش نہیں تھی۔
2. سٹریٹجک سرمایہ کاری کی بجائے اخراجات میں کمی: سرکاری خدمات میں کٹوتیوں سے عوامی ناراضی بڑھی۔
3. شفافیت اور جوابدہی کا فقدان: مالی رپورٹس اور فیصلہ سازی غیر واضح رہی۔
4. حکومت اور پرائیویٹ سیکٹر کے درمیان عدم ہم آہنگی: ٹیکنالوجی کے غلط استعمال سے ایلن مسک اور ٹیسلا کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔
خلاصہ: DOGE کی ناکامی کی بنیادی وجہ سرکاری ماحول کو سمجھنے میں ناکامی اور صرف اقتصادی نقطہ نظر سے اسے دیکھنا تھا۔ حکومت کوئی کارپوریشن نہیں جس کا مقصد صرف منافع ہو، بلکہ یہ شہریوں کے ساتھ سماجی معاہدے پر مبنی ایک ادارہ ہے۔
Short Link
Copied
مشہور خبریں۔
وزیراعظم نے اختلافات بھلاکر دہشت گردی کےخلاف قومی اتحاد ناگزیر قرار دے دیا
?️ 18 اپریل 2025اسلام آباد: (سچ خبریں) وزیراعظم شہباز شریف نے اختلافات بھلا کر دہشت
اپریل
نگران وزیراعظم کا بجلی چوروں، واجبات کے نادہندگان کے خلاف سخت کارروائی کا حکم
?️ 4 ستمبر 2023اسلام آباد:(سچ خبریں) نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے حکام کو قانون نافذ
ستمبر
وزارت تعلیم کی خواہش ہے کہ تعلیمی ادارے کھلے رہیں: شفقت محمود
?️ 22 مارچ 2021اسلام آباد (سچ خبریں)وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود کا کہنا ہے کہ
مارچ
ایون فیلڈ، العزیزیہ ریفرنس: سزا کے خلاف نواز شریف کی اپیلیں بحال
?️ 26 اکتوبر 2023اسلام آباد: (سچ خبریں) اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان مسلم لیگ (ن)
اکتوبر
Asian Games: Two Indonesian skateboarders secure ticket to final
?️ 22 جولائی 2021 When we get out of the glass bottle of our ego
سعودی عرب خون کی ندیاں؛ایک دن میں81 افراد کے سر قلم
?️ 14 مارچ 2022سچ خبریں:سعودی عرب کی حکومت نے اس ملک کی تاریخ میں پہلی
مارچ
انٹرا پارٹی الیکشن کے بارے میں وزیر اعظم کا اہم بیان سامنے آگیا
?️ 31 جولائی 2021اسلام آباد (سچ خبریں) تفصیلات کے مطابق مقررہ وقت میں انٹرا پارٹی
جولائی
ہم کورونا کے خاتمے کے قریب ہیں: عالمی ادارہ صحت
?️ 15 ستمبر 2022سچ خبریں: ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن WHO کے ڈائریکٹر جنرل کا کہنا ہے
ستمبر