سچ خبریں:ایسے حالات میں جب ترکی ایک انتہائی اہم اور حساس انتخابات کی دہلیز پر ہے، اردگان کی حکومت اور اس کے زیرنظر میڈیا کے یہ امریکہ مخالف اشارے اور بیانات بے مقصد نہیں ہیں بلکہ جماعتی، سیاسی اور سوچے سمجھے اقدامات ہیں۔
امریکہ کے ساتھ دوستی یا دشمنی کا مسئلہ ترکی میں اب بھی گرما گرم سیاسی موضوعات میں سے ایک ہے کیونکہ امریکہ دشمنی ترک عوام بالخصوص اس ملک کے اسلام پسندوں کے ایک اہم عقیدے میں سے ایک ہے اور کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ ترکی کے مفادات اور سلامتی کے بارے میں امریکہ کے رویے کے بارے میں کچھ شائع نہ ہوتا ہو۔
اگرچہ ترکی کے زیادہ تر جرنیل، ٹیکنو کریٹس اور لبرل و مغربی سیاست دان ہمیشہ سے انقرہ کی واشنگٹن کے ساتھ دوستی کے حق میں رہے ہیں لیکن اس ملک میں امریکہ دشمنی کے بھی بہت سے چاہنے والے ہیں،زیادہ تر فیلڈ سروے میں تقریباً 60% ترک عوام نے آسانی سے نشاندہی کی کہ ان کی رائے میں، امریکہ ترکی کا سب سے اہم غیر ملکی دشمن ہے،ترکی کے مشہور سیاسی تجزیہ کاروں میں سے ایک ابراہیم کراس نے اس ملک کے ایک اخبار قرار میں اپنے تجزیاتی کالم میں اس مسئلے کا تجزیہ کیا ہے۔
امریکہ، دوست یا دشمن؟
کچھ لوگوں کو یاد ہوگا کہ ترکی میں تقریباً 20 سال پہلے اے کے پارٹی کی پہلی حکومت کے دوران ایک کتاب بہت زیادہ فروخت ہوئی تھی، جس کا نام ناول "میٹل اسٹارم” جو ایک ایسے وقت میں شائع ہوئی جب بش انتظامیہ کے عراق پر حملے نے دنیا بھر میں غم و غصے کو جنم دیا اور ہر کوئی جاننا چاہتا تھا کہ امریکہ کیا چاہتا ہے۔
اس کتاب کا موضوع ترکی پر حملے کی امریکی کوشش تھا، اس ناول کی جلد پر درج ذیل بیان لکھا تھا ’’امریکیوں کا ارادہ ترکی میں موجود بور کی بھرپور معدنیات پر قبضہ کرنا ہے جو اس موذی مقصد کے لئے ہے جس نے سب کچھ خطرے میں ڈال دیا ہے”( کیمیائی علامت B کے ساتھ بور یا بوران ایک کیمیائی عنصر کا نام ہے جس کا ایٹمی نمبر 5 ہے اور اس کا شمار متواتر جدول کے گروپ 13 میں ہوتا ہے، یہ عنصر نیم دھاتوں میں سے ایک ہے اور چونکہ یہ ستاروں کی جوہری تبدیلیوں سے پیدا ہوا ہے اس لیے زمین کی پرت میں یہ کم پایا جاتا ہے ، کہا جاتا ہے کہ ترکی میں اتنا بوران ہے جتنا پوری دنیا 500 سالوں میں استعمال ہوتا ہے)
ترک تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ میں اس دلچسپ تصنیف کی ادبی قدر کے بارے میں کچھ نہیں کہوں گا، جو اس وقت لاکھوں کی تعداد میں چھپی تھی، لیکن میرے خیال میں یہ ادبی علوم کی سماجیات کے لیے ایک بہت ہی نتیجہ خیز مثال ہے، میٹل اسٹارم” ناول کے کچھ عرصے بعد ہمیں ایک ٹی وی سیریل سے متعارف کرایا گیا جس نے بہت بڑے پیمانے پر اسی سے ملتا جلتا اثر دکھایا،اس سیریل میں، جسے "ویلی آف وولوز” (کورٹلر وادیسی) کہا جاتا ہے، میں خفیہ حکومت کی حالت، اثر و رسوخ، اعلیٰ ذہانت اور بوران کی کان جیسے موضوعات پر بات کی گئی، اس سیریل کے ناظرین کی تعداد ترک ٹیلی ویژن کی تاریخ میں ریکارڈ توڑ تھی ، دسیوں ملین لوگوں نے اسے دیکھا۔
اس کے بعد فتح اللہ گولن تحریک سے تعلق رکھنے والے چینلز میں کئی ٹی وی سیریل بنائے گئے، ان سب میں خوفناک اور خفیہ گروپ ترکی کو تقسیم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے اور ملک میں گھس چکے تھے،تاہم اس وقت سیریل ارطغرل کو نشر کیا جا رہا ہے جو عثمانی ریاست کے قیام کے دور کی داستان پر مبنی ہے اور دنیا کے 5 حکمران خاندان، سائے میں رہنے والی حکومت، خوفناک معاشرے جیسے موضوعات کے تیرہویں صدی کے ورژن پیش کرتا ہے۔
ایسے معاملات میں ترک معاشرے کی بڑی دلچسپی اور تجسس واقعی ہمارے لیے نامعلوم نہیں ہے، ایک اہم مسئلہ ترکی کے لیے امریکہ کے خفیہ ارادے ہیں جن پر ناول میٹل اسٹارم اور دیگر متعلقہ مثالوں میں گفتگو کی گئی ہے، درحقیقت ترکی میں امریکہ مخالف تحریک 1960 کی دہائی سے آہستہ آہستہ پروان چڑھی اور پروان چڑھی ہے جو پہلے سوشلسٹ گروپوں ، پھر اسلام پسندوں اور قوم پرستوں کی طرف سے اپنائی گئی، تاہم اس وقت امریکہ مخالف رویہ ترک معاشرے کی ایک غالب خصوصیت بن چکا ہے، درحقیقت اس کی وجوہات کو بیان کرنے کے لیے کافی مفصل گفتگو کی ضرورت ہے، لیکن اتنا واضح رہے کہ مکمل طور پر متضاد نکتہ یہ ہے کہ درحقیقت ترکی مشترکہ خطرات اور مشترکہ مفادات کی وجہ سے امریکہ کے ساتھ ایک سیکورٹی سسٹم میں مشترک ہے نیز تاریخی طور پر بھی، مغربی دنیا میں اس ملک کے مستقبل کے مقاصد ہیں، تاہم ترک معاشرے اور دانشوروں کی غالب اکثریت امریکہ مخالف جذبات اور خیالات رکھتی ہے!
اس نقطہ نظر سے، یہ حیرت کی بات نہیں تھی کہ جب شام کی سرحد کے دوسری طرف PKK کے دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے خلاف ترک فوج کی فوجی کارروائیاں شروع ہوئیں تو اردگان حکومت کی حمایت کرنے والے میڈیا نے کہا کہ ہم امریکی ایجنٹوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، یہ لوگ امریکہ کی ریڑھ کی ہڈی ہیں اور اس حساب سے ہم دراصل امریکہ کو شکست دے رہے ہیں! سچ پوچھیں تو یہ ایک ایسا نقطہ نظر تھا جو ترک معاشرے کی نبض کے مطابق تھا اور ہر ایک کا یہی نطریہ تھا، یہ بھی یاد رکھیں کہ استنبول کی اسٹیگلال اسٹریٹ پر خونریز دہشت گردانہ حملے کے بعد ترکی کے وزیر داخلہ سلیمان سویلو نے کہا تھا کہ ہم امریکی تعزیت کو قبول نہیں کرتے،اگرچہ اس ملک کے صدر نے اس کے برعکس عمل کیا اور بائیڈن کی تعزیت قبول کی!،یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے کہ ترکی کے لوگ ایک طویل عرصے سے امریکہ مخالف رہے ہیں اور آج بھی ہیں، لیکن یہ حقیقت کہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کا میڈیا اور اردگان کی حکومت کے عہدیداروں کا امریکہ کے خلاف اتنا بولنا کچھ مشکوک لگتا ہے اور دال میں کچھ کالا ہے! ۔
واضح رہے کہ ایسے صورتحال میں جب ترکی ایک انتہائی اہم اور حساس انتخابات کی دہلیز پر ہے، اردگان کی حکومت اور اس کے زیرنظر میڈیا کے یہ امریکہ مخالف اشارے اور بیانات بے مقصد نہیں ہیں بلکہ جماعتی، سیاسی اور سوچے سمجھے اقدامات ہیں، استنبول دہشت گردانہ حملے کے لیے واشنگٹن کو مورد الزام ٹھہرانا دراصل حکمران جماعت کے حق میں میڈیا تحریک کا سلسلہ شروع کرنا ہے! وہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایسے حالات میں جہاں امریکہ ترکی کو اس حد تک مار رہا ہے، ضروری ہے کہ اے کے پارٹی کو اکیلا نہ چھوڑا جائے! اعلان کیا گیا ہے کہ استنبول میں حملہ کرنے والا دہشت گرد وائی پی جی سے منسلک تھا اور اسے یہ ہدایات کوبانی سے ملی تھیں، PKK کی شامی شاخ YPG کچھ عرصے سے امریکہ کی حمایت سے ترک سرحد کے قریب کے علاقوں میں سرگرم ہے، امریکی اس تعاون کی وجہ داعش کے خلاف لڑائی کو سمجھتے ہیں، اور یہاں تک کہ وہ طعنہ زنی کے الفاظ میں کہتے ہیں کہ ہم نے اس لڑائی میں کرد ملیشیا کا ساتھ دیا تاکہ ان کے شانہ بشانہ داعش کے خلاف لڑیں، کیوں کہ ترکی نے ہماری مدد نہیں کی! تو ہمیں کردوں سے مدد لینی پڑی!
دریں اثنا، وہ دعوی کرتے ہیں کہ PYD PKK سے الگ تنظیم ہے اور کہتے رہتے ہیں کہ ترکی کا ارضی سالمیت ہمارے لیے بہت اہم اور ضروری ہے! تاہم، دو اتحادی ممالک کی حیثیت سے امریکہ اور ترکی کے درمیان اس مسئلے پر اختلاف اور تنازعہ بہت عجیب ہے جو یقیناً دوستی اور اتحاد کے تصور سے مطابقت نہیں رکھتا،خاص طور پر جب واشنگٹن میں ہونے والے کچھ اجتماعات میں ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جو بائیں اور دائیں طرف "کرد ریاست کے قیام کی حمایت” کا خیال اٹھاتے ہیں اور ترکی کو ناراض کرتے ہیں لہٰذا، ترکی کا خطے میں امریکہ اور PKK کے درمیان تعاون پر بے چینی اور تشویش محسوس کرنا بالکل فطری ہے، ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ بے چینی اور تشویش موجودہ حکومت کے لیے کوئی انوکھا انداز نہیں ہے اور ترکی میں چاہے کوئی بھی سیاسی پارٹی آئے، جو بھی آئے گی پریشان ہوگی اور یہی موقف اپنائے گی۔
تاہم ایک اور اہم نکتہ ہے جسے اردگان کی انتظامیہ نظرانداز کرنے کو ترجیح دیتی ہے کہ یہ صرف امریکہ ہی نہیں جو YPG کے ساتھ تعاون کر رہا ہے بلکہ روس جس نے ابھی تک PKK کو دہشت گرد تنظیم قرارنہیں دیا ہے، اس نے YPG کو ماسکو میں اپنا نمائندہ دفتر کھولنے کی اجازت دی ہے! سچ پوچھیں تو دوسری جنگ عظیم کے بعد مغربی سیکورٹی اتحاد میں حصہ لینے کی ترکی کی ترجیح اور انتخاب روس پر منحصر "سوویت جمہوریہ ترکی” بننے سے بچنا تھا!
یاد رہے کہ سرد جنگ کے طویل سالوں میں ترکی کے اپنے مغربی اتحادیوں کے ساتھ بہت سے اختلافات تھے۔ مثال کے طور پر، قبرص اور بحیرہ ایجین جیسے مسائل میں، تاہم اس نے تعلقات کو سنبھالا اور ان کے ساتھ اتحاد سے دستبردار نہیں ہوا کیونکہ ملکوں کے درمیان اتحاد کے تعلقات کا مطلب برادرانہ تعلقات نہیں ہوتے بلکہ اس کا مطلب کچھ مشترکہ مفادات کو برقرار رکھنے کے لیے تعاون اور باہمی یکجہتی ہے جو خالصتاً منطقی تعلق کی ترغیب ہے، جذباتی نہیں اور اس رشتے کا تمام شعبوں میں ہونا ضروری نہیں ہے،مثال کے طور پر یورپی ممالک تمام شعبوں اور ہر معاملے میں امریکہ کے ساتھ نہیں ہیں۔
یاد رہے کہ 2000 کی دہائی میں ریاستہائے متحدہ امریکہ، یورپی یونین کے ممالک اور مشرق وسطیٰ کے عرب ممالک کے ساتھ اپنے اچھے تعلقات کی بدولت ترکی متعدد تعاون اور مسابقت کو ایک ساتھ آگے بڑھانے اور قابل قدر کامیابیاں حاصل کرنے میں کامیاب رہا کیونکہ اسے بعض مسائل میں امریکہ کے خلاف یورپ کے ساتھ اور بعض مسائل میں یورپ کے خلاف امریکیوں کے ساتھ تعاون کرنے کا موقع ملا ، ادھرترکی کے سابق سوویت یونین اور بلقان کے متعلقہ معاشروں کے ساتھ ساتھ اسلامی دنیا کے ساتھ اچھے تعلقات نے مغربی بلاک میں اس ملک کی طاقت اور ساکھ میں اضافہ کیا لیکن بدقسمتی سے 2010 کی دہائی سے یہ توازن بدلنا شروع ہو گیا، رفتہ رفتہ تمام محاذوں پر دوستی اور اچھے تعلقات کی سطح کم ہوتی گئی اور دشمنی اور عداوت میں اضافہ ہوتا گیا جبکہ اردگان کی حکومت کے بعض نظریاتی جنون اور سیاسی غلطیوں نے ترکی کو اس حال تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔
تاہم ترکی کی بڑی غلطی خارجہ پالیسی کو ملکی سیاست اور پارٹی مفادات پر قربان کرنا تھی، اردگان کی حکومت نے بین الاقوامی میدان میں کچھ تنازعات کو انتخابی مارچوں اور پارٹی کے اجتماعات میں شہریوں کو جوش دلانے کے لیے اچھالنے کی کوشش کی!،یاد رہے کہ اس وقت ترکی یورپ اور امریکہ کے ساتھ دوطرفہ مسائل پر بات چیت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور بدقسمتی سے مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ بھی اس کے اچھے تعلقات نہیں ہیں نیز اس نے اصلاحات اور تعمیر نو کے لیے جو عمل شروع کیا ہے اس میں "برابر” اور مساوی کرنسی کی نوعیت کا وعدہ بھی نہیں ہے،خلاصہ یہ کہ اس وقت خارجہ اور علاقائی سیاست میں اس ملک کے پاس جو کچھ ہے وہ نعروں اور پروپیگنڈے کے سوا کچھ نہیں!