اسلام آباد: (سچ خبریں) گیس کی قیمتوں میں اضافے اور سپلائی منقطع کرکے صنعتی کیپٹو پاور پلانٹس (سی پی پیز) کو نیشنل پاور گرڈ پر منتقل کرنے کے آئی ایم ایف کے دباؤ کے بعد گیس کمپنیوں نے نجی حریفوں کے ہاتھوں پرانے گاہکوں کو کھونے پر شور مچانا شروع کردیا اور حکومت سے غیر منصافانہ پالیسی پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک سرکاری ادارے نے حکومت سے کلیئرنس طلب کرتے ہوئے موقف اپنایا ہے کہ اگر سوئی ناردرن گیس پائپ لائنز لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) اور سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی ایل) طلب کو پورا کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو سی پی پیز کو فراہمی کے لیے اسے ایل این جی درآمد کرنے کی اجازت دی جائے۔
ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پاکستان ایل این جی لمیٹڈ (پی ایل ایل) نے گزشتہ ہفتے خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) کو تجویز پیش کی تھی کہ اسے ایل این جی کارگو درآمد کرنے اور صنعتی شعبے کو فراہم کرنے کی اجازت دی جائے، کیونکہ ایس این جی پی ایل اور ایس ایس جی سی ایل کو صارفین کی کمی کا سامنا ہے اور وہ کنٹریکٹ شدہ کارگو کی منسوخی چاہتے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ لاہور سے تعلق رکھنے والی ایس این جی پی ایل نے پی ایل ایل کی تجویز اور اپنے گاہکوں کو نجی شپرز پر منتقل کرنے کی مخالفت کی ہے۔
ایک ذریعے نے سوال کیا کہ ’یہ کیسے ممکن ہے کہ آئی ایم ایف کی شرط کا اطلاق ایک موجودہ گیس سپلائر پر ہو اور اسی وزارت توانائی یا نجی پارٹی کے تحت کسی دوسری کمپنی پر نہ ہو؟‘ انہوں نے دلیل دی کہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کی جانب سے ریگولیٹ نہ کی جانے والی قیمت پر گیس کی فراہمی مزید سی پی پیز کو پاور گرڈ سے دور رہنے کی ترغیب دے سکتی ہے۔
واضح رہے کہ چند روز قبل حکومت نے سی پی پیز کے لیے گیس کی قیمتوں میں 3 ہزار روپے سے ساڑھے 3 ہزار روپے فی ملین برٹش تھرمل یونٹ (ایم ایم بی ٹی یو) تک کا اضافہ کیا تھا اور ان صنعتی پلانٹس کی بجلی کی پیداوار کو نیشنل پاور گرڈ کے برابر لانے کے لیے مزید 5 فیصد لیوی عائد کی تھی۔
پاور ڈویژن نے پہلے ہی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ بجلی کی بلاتعطل فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے سی پی پیز کے ساتھ نئے سروس اسٹینڈرڈ معاہدوں پر دستخط کریں۔
آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدوں کے ایک حصے کے طور پر حکومت نے جنوری 2025 تک سی پی پیز کو گیس کی فراہمی منقطع کرنے کا وعدہ کیا تھا، جس سے انہیں قومی گرڈ میں شامل کرنے پر مجبور کیا گیا تھا تاہم جب تک تکنیکی گرڈ کی رکاوٹوں کو حل نہیں کیا جاتا، حکومت بجلی کی قیمتوں کو پورا کرنے کے لیے گیس کے نرخوں میں اضافہ کرنے پر راضی ہوگئی۔
ایس این جی پی ایل نے تحریری طور پر مطالبہ کیا ہے کہ سی پی پیز کو گیس گرڈ سے نکال کر نیشنل گرڈ میں منتقل کرنے سے متعلق کسی بھی پالیسی پر سرکاری اور نجی شعبوں میں عمل درآمد کیا جائے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آر ایل این جی پر چلنے والے پنجاب جیسے علاقوں میں تھرڈ پارٹیز کو سستے نرخوں پر دیسی گیس فروخت کرنے کی موجودہ پالیسی نے پہلے ہی مارکیٹ میں بگاڑ پیدا کر دیا ہے۔
ایس این جی پی ایل کا کہنا ہے کہ وہ صرف اوگرا کے نوٹیفائیڈ آر ایل این جی ٹیرف پر گیس فروخت کر سکتی ہے جبکہ نجی کمپنیاں آر ایل این جی کے نامزد علاقوں میں سستی دیسی گیس فراہم کر سکتی ہیں اور کمپنی کے خرچ پر غیر معمولی منافع حاصل کر رہی ہیں۔
گیس کمپنی نے دعویٰ کیا کہ سی پی پیز سے متعلق آئی ایم ایف کی اسکیم پیٹرولیم سیکٹر کے لیے تباہ کن ہوگی کیونکہ اس سے ایس این جی پی ایل اور پاکستان اسٹیٹ آئل وغیرہ دیوالیہ ہو سکتے ہیں اور ممکنہ طور پر خود مختار دیوالیہ کا باعث بن سکتے ہیں، تیسرے فریق کو اس فیصلے سے بہت فائدہ ہوگا کیونکہ انہیں سی پی پیز کو سپلائی روکنے کے لیے نہیں کہا جارہا ہے۔
ایس این جی پی ایل کا کہنا ہے کہ ’حقیقت میں، یہ سی پی پیز تھرڈ پارٹی شپرز کی طرف منتقل ہو رہے ہیں کیونکہ ان کا ایک بڑا حصہ بہت زیادہ ٹیرف، قابل اعتماد فراہمی کے فقدان وغیرہ کی وجہ سے بجلی کے شعبے کا انتخاب کرنے سے گریز کرہا ہے‘، لہٰذا آئی ایم ایف کی شرائط کی روح پر سمجھوتہ کیا جائے گا اور یہ تیسرے فریق عوام کی قیمت پر مارکیٹ کی خامیوں اور ریگولیٹری ناکامی کی وجہ سے غیر معمولی منافع کمائیں گے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک فعال شپر ’یو جی ڈی سی‘ پہلے ہی پنجاب کے سی پی پیز کو گیس فراہم کر رہا ہے جن میں طارق گلاس، اتحاد کیمیکلز، ازگارڈ نائن، دین انڈسٹریز، ایم کے سنز اور آئی پاک فلمز شامل ہیں۔
ایس این جی پی ایل نے شکایت کی کہ گیس گرڈ سے سی پی پیز کے جانے سے اس کی فروخت میں کمی آئے گی جس سے اس کی آمدنی متاثر ہوگی۔
ایس ایس جی سی ایل کی جانب سے آر ایل این جی کے مزید 40 ایم ایم سی ایف ڈی سرپلس فراہم کیے جائیں گے، سی پی پیز کی اچانک منتقلی سے پیدا ہونے والا کل آر ایل این جی سرپلس تقریباً 200 ایم ایم سی ایف ڈی ہوگا جبکہ پاور آف ٹیک میں کمی کی وجہ سے 150 ایم ایم سی ایف ڈی سرپلس ہوگا، جس سے کل سرپلس تقریباً 350 ایم ایم سی ایف ڈی ہوجائے گا۔
ایس این جی پی ایل نے کہا کہ یہ تعداد بڑھ کر 400 ایم ایم سی ایف ڈی ہوجائے گی کیونکہ کے الیکٹرک کی پی ایل ایل سے آر ایل این جی کی طلب 2026 سے مرحلہ وار ختم ہونے کی توقع ہے، اس کے نتیجے میں ممکنہ طور پر بقیہ معاہدے میں تقریباً 240 اضافی کارگو پیدا ہوسکتے ہیں۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ آر ایل این جی کی 30 فیصد سے زائد سپلائی سرپلس ہو جائے گی، ایسی صورت میں ایس این جی پی ایل کو گھریلو صارفین کو ان کی طلب کی حد تک آر ایل این جی منتقل کرنے سے روک دیا جائے گا، اس طرح آر ایل این جی ڈائیورژن حجم میں اضافہ ہوگا۔
چونکہ گھریلو طلب محدود تھی، اس لیے ایس این جی پی ایل کو مقامی گیس فیلڈز سے سپلائی کم کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا، یا اضافی ایل این جی کارگوز کو بھاری ’ٹیک یا پے‘ جرمانے پر منتقل کرنا پڑ سکتا ہے یا خالص آمدنی کے فرق پر فروخت کرنا پڑ سکتا ہے۔
ایس این جی پی ایل نے مطالبہ کیا کہ آر ایل این جی علاقوں میں تیسرے فریق کو مقامی گیس فروخت کرنے کی اجازت دینے کی پالیسی کا جائزہ لیا جائے اور گیس یوٹیلیٹیز کو تمام دستیاب اور آنے والی مقامی گیس فراہم کی جائے تاکہ عوام کو سستے نرخوں پر بڑے پیمانے پر گیس کی فراہمی کے لیے مقامی گیس کا مرکب بڑھایا جاسکے۔
اس میں یہ بھی مطالبہ کیا گیا ہے کہ یکساں مواقع کو یقینی بنایا جائے اور ریگولیٹری خامیوں، سرکاری اور نجی جماعتوں کو تیل کے شعبے کی طرح مساوی شرائط پر مقابلہ کرنے کی اجازت دی جائے، جہاں پی ایس او نجی آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے ساتھ ایک ہی قیمت کے ڈھانچے پر اور ان بلٹ سبسڈی کے بغیر مقابلہ کرتا ہے۔
اس کے علاوہ گیس کی قومی اوسط قیمت (واکوگ) اور پاور سیکٹر کو مقامی گیس کی فراہمی کے لیے علیحدہ ٹیرف کے نفاذ کا مطالبہ کیا گیا تاکہ گیس یوٹیلیٹیز اضافی حالات میں مقامی اور آر ایل این جی دونوں کو ملا سکیں، جس سے گھریلو صارفین پر منتقل ہونے والی ڈائیورژن کی لاگت کو کم کیا جاسکے۔