اسلام آباد:(سچ خبریں) وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان ’پاک-چین آزاد تجارتی معاہدے‘ کے دوسرے مرحلے کا بہترین استعمال کرتے ہوئے چین کے ساتھ سرمایہ کاری اور تجارتی تعلقات کو وسعت دینا چاہتا ہے۔
چینی اخبار ’گلوبل ٹائمز‘ میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل میں وزیر اعظم نے کہا کہ ’پاکستان چین کے لیے بطور مینوفیکچرنگ بیس صنعت اور سپلائی چین نیٹ ورک میں توسیع کے سلسلے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے‘۔
وزیر اعظم نے لکھا کہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد ایک ایسے وقت میں چین کے دورہ پر ہوں گا جب چین کی کمیونسٹ پارٹی کی 20ویں قومی کانگریس کامیابی سے اختتام پذیر ہوئی، چین کی ترقی کے نئے دور کے آغازپر اپنے بھائی جنرل سیکریٹری شی جن پنگ اور کمیونسٹ پارٹی کو دلی مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ ابھرتے ہوئے عالمی منظر نامے کے درمیان پاکستان اور چین کے درمیان اسٹریٹجک شراکت داری میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے، جغرافیاتی تقاضوں ،مشترکہ نکتہ نظر اور توسیع پذیر اقتصادی شراکت داری کے شدید احساس نے ہمیں فطری شراکت داربنا دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ باہمی احترام اور تعاون کے جذبے کی بنیاد پر دوستانہ تعلقات کے خواہاں ہیں، ہم اقوام متحدہ کے چارٹر اور قراردادوں کی بنیاد پر مسئلہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب تنازعات کا مذاکرات اور سفارت کاری کے ذریعے پرامن حل چاہتے ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ کورونا وبا کے بعد چین نے پاکستان کو جو یکجہتی اور امداد فراہم کی ہے وہ ہماری کُل وقتی دوستی کی واضح مثال ہے، ہنگامی طبی سامان کی 60 سے زائد امدادی پروازیں پاکستان بھیجی گئیں، چینی ساختہ ویکسین ملک بھر میں ہماری حفاظتی ویکسینیشن مہم کا بنیادی مرکز تھیں۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح پاکستان میں حالیہ تباہ کن سیلاب کے بعد چین کی اعلیٰ قیادت، مرکزی و صوبائی حکومتوں، کاروباری اداروں اور تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے عام لوگ پاکستان کی مدد کیلئے آگے آئے۔
انہوں نے کہا کہ دیگرممالک کی طرح پاکستان کی معیشت کو بھی عالمی معاشی سست روی، خوراک اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ اور سپلائی چین میں رکاوٹوں کی وجہ سے کئی چیلنجوں کا سامنا ہے۔
وزیر اعظم نے کہا کہ عالمی اقتصادی مشکلات کے باوجود ہماری حکومت اپنے مقامی وسائل اور ہمارے لوگوں کی خوشحالی اور ترقی کو یقینی بنانے کی صلاحیت کو بروئے کارلانے کیلئے پوری تندہی سے کام کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان مقاصد کے حصول کیلئے ہم چین کی کامیابیوں سے تحریک لیتے ہیں، خواہ وہ ایک معتدل خوشحال معاشرے کی تعمیر کا پہلا صد سالہ ہدف حاصل کرنا ہو یا ہر لحاظ سے ایک جدید سوشلسٹ ملک کی تعمیرکے دوسرے صد سالہ ہدف کو پورا کرنے کیلئے اس کی کوششیں ہوں۔
دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو وسعت دینے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چین پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی اور سرمایہ کاری شراکت دار ہے، ہم چین پاکستان آزاد تجارتی معاہدے کے دوسرے مرحلے کا بہترین استعمال کرتے ہوئے اور صنعتی تعاون کوبڑھا کر ان تعلقات کومزید وسعت دینا چاہتے ہیں۔
وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان نے چینی کمپنیوں کو صنعت، زراعت، انفرااسٹرکچر، گرین انرجی اور ڈیجیٹل معیشت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی پیشکش کی ہے۔
انہوں نے پاکستان میں چینی شہریوں کی حفاظت کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ حکومت کی اولین ترجیح ہے، ہم کسی کو اپنی دوستی اور مضبوط اقتصادی شراکت داری کو نقصان پہنچانے نہیں دیں گے، میری حکومت ان قابل مذمت کارروائیوں میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گی‘۔
دریں اثنا پاک چین بزنس اینڈ ایویسٹمنٹ فورم کی تقریب سے خاطب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ میں امید کرتا ہوں کہ یہ فورم پاکستان اور چین کے درمیان کاروباری تعلقات کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ کل ہم دوری چین پر روانہ ہوہے ہیں جہاں ہم دونوں ممالک کے درمیان ثقافتی اور اسٹریٹیجک تعلقات کے فروغ کے لیے صدر شی جن پنگ سمیت چینی قیادت سے ملاقات کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ سی پیک کے تحت چینی کمپنیوں کی جانب سے پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کا عہد کیا جا چکا ہے، چینی سرمایہ کاری کے نیتجے میں پاکستان توانائی کے بحران سے نمٹنے میں کامیاب ہوا اور انڈسٹری اور زراعت کا شعبہ بحال ہوا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے اور پاکستان میں سب سے بڑا سرمایہ کار ہے، دونوں ممالک کے درمیان درآمدات و برآمدات کے فروغ کے لیے بڑے مواقع موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ چین ہائی ٹیک انڈسٹری کی جانب بڑھ رہا ہے، اگر چین کی جانب سے یہ انڈسٹری پاکستان میں لگائی جائے تو پاکستان سستی لیبر فراہم کر سکتا ہے، یہاں سے پیداوار چین سمیت دیگر ممالک میں برآمد کی جاتی ہے جوکہ پاکستان اور چین کے کاروباری شعبوں کے لیے مفید صورت ہوگی۔
انہوں نے کہا پاکستان میں سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے چین سب زیادہ عطیہ کرنے والوں میں شامل ہے، یہ ہماری دیرینہ دوستی کی نمایاں مثال ہے کس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔
وزیر اعظم نے کہا کہ یہ وقت ہے کہ چینی کارباری اداروں سے مزید تعلقات استوار کیے جائیں اور چینی سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول تیار کیا جائے، امید ہے دورہ چین ان مقاصد کے حصول کے لیے مفید ثابت ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ ’یہ میرا چین کا 30واں یا 31واں دورہ ہے، میں پہلی بار 1982 میں چین گیا تھا، اس وقت چین میں گاڑیاں مشکل سے ہی نظر آتی تھیں لیکن اب چین کا منظرنامہ بدل چکا ہے، لاکھوں گاڑیاں چین کی سڑکوں پر دوڑ رہی ہیں، 70 کروڑ کی آبادی خط غربت سے باہر آ چکی ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ چین کی یہ کامیابیاں شی جن پنگ کی عظیم قیادت کا ثمر ہے، ہمیں چینی ماڈل سے سیکھنا ہوگا اور پاکستان میں اسے نافذ کرنا ہوگا۔