اسلام آباد:(سچ خبریں) وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ آرمی چیف کی تعیناتی کے حوالے سے وزیراعظم کا خط وزارت دفاع کو موصول ہوا اور جی ایچ کیو کو بھیج دیا گیا، اب ایک دو روز یا تین روز میں تعیناتی کا عمل مکمل ہوجائے گا۔
قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ ایک ہیجان ہے، آج جس تقرری کا عمل شروع ہوا ہے، اس پر ہیجان برپا کردیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اپنے اقتدار کے لیے یا اقتدار کی جدائی اور غم میں پاگل ہوئے ہیں، ان حربوں سے ملک اور قوم کی وحدت کو نقصان پہنچا رہے ہیں، اداروں کی عزت اور احترام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انہی اداروں نے ان کے ساتھ 4 سال غیرمشروط تعاون کیا، اس کے باوجود وہ کچھ نہیں کرسکے اور ملک میں غربت، بے روزگاری اور مہنگائی چھوڑ کر گئے ہیں تو انہیں شرمندہ ہونا چاہیے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ پی ٹی آئی کے ایک رکن اسمبلی نے کہا کہ ہم جب ان کے پاس حلقے کے لیے ترقیاتی فنڈز مانگتے یا معیشت کے بارے میں کچھ کہتے تھے تو وہ کہتے تھے اس سے ووٹ نہیں ملتے آپ صرف چور چور کہتے جاؤ اس سے ووٹ بڑھیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ اس کا فلسفہ ہے جو 26 تاریخ کو پنڈی آکر دھرنا دینے کا اعلان کیا ہے، ٹیکنالوجی ترقی کرگئی ہے، ان کا کارکن روز جی ٹی روڈ پر رل رہا ہے اور وہ خود آن لائن خطاب کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج وزارت دفاع کو وزیراعظم کا خط موصول ہوا اور وہ خط جی ایچ کیو کو بھیج دیا گیا ہے، کل یا پرسوں ایک دو روز یا تین روز میں یہ عمل تکمیل تک پہنچ جائے گا اور اس کے بعد دو دو ہاتھ کرلیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ حامد میر نے مجھے بتایا کہ عمران خان نے بھارت سے ملنے والا گولڈ میڈل بھی بیچ دیا ہے، ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ اس طرح کا شخص اقتدار میں کیسے آیا۔
وزیر دفاع نے کہا کہ توشہ خانہ سے تحائف ہماری حکومت سمیت سب نے لیے لیکن یہ پہلا شخص ہے جس نے وہ تحائف بیچ ڈالے، ابھی اور چیزیں آرہی ہیں کہ انہوں نے بیرون ملک سے ملنے والے تحائف کا کاروبار بنایا تھا۔
انہوں نے کہا کہ یہ شخص کس طرح برسر اقتدار آیا اور اس کو برسر اقتدار لانے کے لیے 10 سے 15 سال تک کیسے انجینئر کیا گیا، یہ اس ملک اور قوم کی بدقسمتی ہے اور اس کے لیے ہم ذمہ دار ہیں، جن کے پاس کسی نہ کسی طور پر ملک کی حکمرانی رہی، صرف سیاست دان ذمہ دار نہیں بلکہ ہمارے اقتدار کے ڈھانچے میں شامل دیگر عوامل سب شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ باوجود ان تمام باتوں کو اس شخص کو ملک میں بڑی حمایت حاصل ہے، جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا، اس شخص کو برداشت کرنا یا لیڈر تسلیم کرنے والوں جی کیا اخلاقیات یا سوچ ہوگی، یہ ساری قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ہماری اخلاقیات کی سطح کہاں پہنچی ہے کہ ہم اپنے لیڈرز میں کیا دیکھ رہے ہیں اور طشت ازبام ہو رہی ہیں لیکن ہم اس کو نظر انداز کرکے اس کو اپنا لیڈر مان رہے ہیں.
خواجہ آصف نے عمران خان کا نام لیے بغیر کہا کہ یہ تو رنگے ہاتھوں پکڑا گیا ہے، وہ انکار نہیں کرسکتا، اسی ایوان میں جب عدم اعتماد کا ووٹ ہوا تو اس نے کہا یہ امریکی سازش ہے، 6 مہینے بعد خیال آیا امریکا کو ناراض نہیں کرنا چاہیے اور آڈیو میں کہا اس سے کھیلنا ہے لیکن نام نہیں لینا۔
ان کا کہنا تھا کہ امپورٹڈ حکومت، بیرونی سازش اور حقیقی آزادی کے نعرے کہاں گئے، امریکا بری الذمہ ہوگیا اور انہوں نے اس کو بے قصور قرار دے دیا، اس کے بعد دوسرا الزام تھا کہ فوج یا انٹیلیجنس ایجنسیز یا اسٹیبلشمنٹ نے اس تحریک میں ہماری مدد کی ہے، اب ان کو بھی بری الذمہ قرار دے دیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ تو شکر ہے کہ اس نے تسلیم کیا ہے کہ یہ نہ تو ایجنسیوں کا کام ہے، نہ امریکا کا کام ہے بلکہ یہ اس ایوان کے اراکین کا کام ہے، جنہوں نے عدم اعتماد کا ووٹ دیا کیونکہ اس نے کہا ہے کہ کم از کم روک تو سکتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب یہ لفظ ادا کرتا ہے کہ کم از کم روک تو سکتے تھے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم یہاں پر جو آئینی اقدام اٹھا رہے تھے اس کو روکنے کے لیے وہ دعوت گناہ دے رہے تھے کہ مداخلت کرو اور میرے خلاف جو ہو رہا ہے اس کے خلاف میرا اقتدار بچاؤ۔
وزیردفاع نے کہا کہ ہم پہلے اپنی برادری کی غلطی تسلیم کرتے ہیں کہ 75 سال میں شاید ہم نے جن توقعات کے ساتھ یہاں بھیجا جاتا ہے کہ ہم نے وہ پوری نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد جن کے ہاتھ میں ملک کا انتظام اور انصرام آتا ہے کیا وہ یہ اعتماد کے ساتھ کہہ سکتےہیں انہوں نے 75 سال میں اس ملک میں حکمرانی کی ہے کیونکہ مستقل حکمرانی ان کے پاس رہی ہے ہم تو کبھی آتے اور کبھی جاتے رہے ہیں، کبھی مارشل لا آگیا، کبھی فوج آگئی اور کبھی جیل چلے گئے لیکن مستقل حکمرانی بیوروکریسی کی رہی ہے، اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بیوروکریسی اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی حکومت کے ساتھ برابر شریک رہی اس لیے وہ بھی ملک میں آج ہو رہا ہے اس کی ذمہ داری تسلیم کرے۔
وزیردفاع نے کہا کہ اس کے بعد میڈیا کا نمبر ہے، آزادی رائے بڑا مقدس حق ہے اور اس کا احترام ہے، صبح سے ایک ہیجان ہے، سمری آگئی، سمری چلی گئی، نام آگئے اور ڈوزیئر چلے گئے لیکن کسی نے ویریفائی کرنے کی کوشش نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ پیمرا کا قانون ہے کہ 10 فیصد کمرشل ٹائم عوامی پیغام کے لیے مختص ہے لیکن پیمرا اس پر عمل نہیں کرواتا اور کمپرومائز ہوتا ہے اور جب عوام سو رہے ہوتےہیں تو پیغام آتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہماری اسٹیشلمنٹ نے 4 مرتبہ حکومت پر قبضہ کیا اور 37 سال براہ راست حکمرانی کی ہے اور آج ان حکمرانیوں کی وجہ سے یہاں کھڑے ہیں، اس کے بعد بالواسطہ حکمرانی کی ہے۔
خواجہ آصف نے کہا کہ آج ایسے موڑ پر کھڑے ہیں، ایف بی آر کی تفصیل دیکھیں کتنے لوگ ٹیکس دیتے ہیں، پاکستان واحد ملک ہے جہاں رات 12 بجے تک مارکیٹس کھلی ہوتی ہے حالانکہ بجلی پوری نہیں ہوتی۔
ان کا کہنا تھا کہ آج کل صرف ایک مسئلہ ہے اور کوئی مسئلہ نہیں ہے، اس ملک میں کئی دفعہ آرمی چیف آئے اور چلے گئے، ایک منتقلی ہے جو ہر تین سال بعد یا کبھی دیر سے ہوتی ہے لیکن یہ ہیجان ایسے وقت میں جب معاشی طور پر ہم کمزور ہیں ایسے میں اٹھانا بہتر نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ جلد یہ مرحلہ گزر جائے تاکہ ہم استحکام کی طرف رواں دواں ہوسکے لیکن ایوان سے گزارش ہے کہ ہیجان پیدا نہ کریں کیونکہ 6 اور 7 دہائیاں ہم پیچھے دیکھتے ہیں تو پاکستان نے کھویا ہے پایا کچھ نہیں، نوے کی دہائی میں سیاسی طور پر آنکھوں میں حیا اور رواداری تھی لیکن یہ روایات ختم کیوں ہوئیں، یہاں ہر چیز کمرشل ہوچکی ہے،۔
وزیردفاع نے کہا کہ امید ہے اگلے دو تین روز میں ہم یہ عمل مکمل کرلیں گے اور پورا یقین ہے کہ جس طرح پیش گوئی اور نام لیے جارہے ہیں اور امید کی جارہی ہے وزیراعظم اتحادی حکومت کا ہے اور صدر پی ٹی آئی کا ہے تو سمری پر وہ بیٹھ جائیں گے تو ملک کا سوچیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ پاکستان کے افواج کے سربراہ کی تعیناتی ہے، 6 سے 7 لاکھ فورسز کے چیف کی تعیناتی ہے اور وہ برملا اعلان کر رہے ہیں کہ ہم نے خود کو نیوٹرل کیا ہے تو ہم سیاست دان موقع دیں کہ وہ اپنا یہ وعدہ پورا کریں اور وہ اپنا فرض پورا کریں۔
خواجہ آصف نے کہا کہ مجھ سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ اور پنڈی ایک پیچ پر ہیں تو میں نے جواب دیا کہ پیج صرف آئین اور قانون کا ہے اور کوئی پیج نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی طرح یہ مفادات کا کوئی پیج نہیں ہے، یہاں صرف آئین اور قانون کا پیج ہے اور ہم اس میں ایک ہیں اور تمام اداروں کو اس پیج میں ایک ہونا پڑے گا چاہے عدلیہ ہو، عدلیہ کی تاریخ بھی قابل فخر نہیں ہے اور ایسے لمحات آئے جس کو نہ یاد کیا جائے تو بہتر ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک تمام ادارے ایک پیج پر نہیں ہوں گے اور وہ پیج مفادات کا نہیں بلکہ آئین اور قانون کا پیج ہوگا تو ترقی نہیں ہوگی اس لیے سب ادارے ایک پیج پر آئیں اور ہمارے پاس اتنے وسائل ہیں کہ ترقی کریں گے۔