اسلام آباد(سچ خبریں) وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ناراض رہنما جہانگیر ترین کے معاملے پر وزیراعظم عمران خان کے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں کسی کا بھی احتساب ہوگا اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) یا کسی ادارے پر دباؤ نہیں ڈالا جائے گا۔
وزیراعظم سے اراکین اسمبلی کی ملاقات ہوئی، جس میں وہ سارے اراکین تھے جو جہانگیر ترین کے معاملے پر اپنی گزارشات وزیراعظم تک پہنچائیں اور تفصیل سے تبادلہ خیال ہوا۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین کا پارٹی کے لیے بہت کام ہے لیکن جو پارٹی انصاف کی بنیاد پر وجود میں آئی ہو اور اس کا نصب العین یہ ہو کہ ہم احتساب کریں گے اور برابر احتساب ہوگا تو وہ کسی طور پر یہ نہیں کرسکتی کہ اپنے لوگوں کے لیے انصاف کا معیار اور ہو اور دوسروں کے لیے اور ہو، وزیراعظم نے اس اصول کا اعادہ کیا۔
وزیراعظم کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے اس ملاقات میں کہا کہ کسی بھی صورت میں ایف آئی اے یا کسی اداروں پر دباؤ نہیں ڈالا جائے گا کہ وہ کسی کے خلاف تحقیقات میں نرمی کرے اور ایسا لگے کہ اس پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کا ایف آئی اے کی تحقیقات پر قطعی طور پر اثرانداز ہونا ممکن نہیں البتہ جن اراکین کو شکایت ہے کہ چند شخصیات جان بوجھ کر جہانگیر ترین کو بدنام کرنا چاہتے ہیں، اس کے لیے سینیٹر علی ظفر کو نامزد کیا ہے کہ اس کیس کا دونوں اطراف کا جائزہ لیں اور وزیراعظم کو ایک رپورٹ پیش کریں گے۔
فواد چوہدری نے کہا کہ علی ظفر وہ رپورٹ سے آگاہ کریں گے لیکن جو تحقیقات اور دیگر معاملات پر انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے اور باقی لوگوں نے جس پر اتھارٹیز کا سامنا کیا ہے وہ یہاں بھی ہوگا۔
کابینہ اجلاس کی کارروائی سے آگاہ کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ حکومت اتنی سنجیدہ ہے کہ وزیراعظم نے الیکٹرونک ووٹنگ مشین پر رپورٹ طلب کی ہے، اس مشین کے دو حصے ہیں، ایک ٹیکنالوجی اور دوسرا قانون سازی کا حصہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹیکنالوجی کا حصہ تیار ہے، وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے دو محمکے کامسیٹس اور این آئی ای نے اپنی مشین بنائی ہوئی ہے اور ساتھ ساتھ این آر ٹی سی نے بھی مشینیں بنا لی ہیں اور بابر اعوان نے کابینہ کو بریف کیا کہ دیگر اسٹیک ہولڈرز ک ساتھ کیا بات ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں اپوزیشن انتخابی اصلاحات پر ہمارے ساتھ بیٹھے اور آگے بڑھیں، اس لیے اپوزیشن سنجیدہ رویہ اختیار کریں اور انتخابی اصلاحات پر اپنی تجاویز دیں۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ہمیں اُمید ہے کہ اس حوالے سے قانون سازی جلد ہوگی اور اگلے انتخاب الیکٹرونک ووٹنگ کی بنیاد پر ہوگا اور 90 لاکھ پاکستانی جو باہر ہیں ان کو ہم ہر صورت ووٹنگ کا حق دینا چاہتے ہیں، شاید مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی کو تکلیف ہوگی بیرون ملک پاکستانی ان کا ووٹر نہیں ہے بلکہ پی ٹی آئی کا ووٹر ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلزپارٹی بالخصوص اور ایوان میں موجود جماعتوں کو سامنے آنا پڑے گا کہ وہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینا چاہتے ہیں یا نہیں کیونکہ اس معاملے کو مزید نہیں لٹکایا جاسکتا اور ہم ان کے بغیر آگے بڑھیں گے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ ہم نے خیبرپختونخوا میں اپنے وزیر کے اوپر ایف آئی آر کردی، یہ 20 سے 22 کروڑ عوام کا ملک ہے یہاں ہر کام ڈنڈا لے کر نہیں کرواسکتے، خود بھی تو عقل کرنی چاہیے، یہ اپنی زندگیوں کا معاملہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت 5 ہزار متاثرین تشویش ناک حالت میں ہیں، اس سے پہلے پیک 3400 تھی یعنی 3400 مریض انتہائی نگہداشت میں گئے تھے اب 5 ہزار لوگ گئے ہیں، اگر ہم ایک سال پہلے وہ اقدامات نہ کیے ہوتے جو اس حکومت نے کیے ہیں تو ہماری حالت بھی تقریباً بھارت کی طرح ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ ہم اس ایک سال کے دوران 7 ہزار بیڈز کا اضافہ کیا جس میں آکسیجن اور وینٹی لیٹربیڈز بھی شامل ہیں، اگر یہ نہیں ہوتا ہماری حالت بھارت کی طرح ہوتی، ہم نے ایک سال میں اپنی صلاحیت کو دوگنا کیا، اگر ایسا نہ کرتے تو آج آکسیجن کی حالت بھی ہمارے ہاتھ سے نکل چکی ہوتی۔
آکسیجن کی پیداوار کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ جون 2020 میں 484 میٹرک ٹن آکسیجن یومیہ بنا رہے تھے اور اس وقت 792 میٹرک ٹن بنا رہے ہیں اور 308 میٹرک ٹن کا اضافہ کیا ہے جس کی وجہ سے ابھی آکسیجن کا بحران پیدا نہیں ہوا، صحت کے شعبے میں 500 میٹرک ٹن آکسیجن جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت تشویش ناک حالت کے مریضوں کی ضروریات کے لیے کافی ہے لیکن ہم 90 فیصد تک پہنچ گئے ہیں اور ہمارے تین آپشنز ہیں، ایک صنعت سے لے کر صحت کے شعبے کو دیں گے پھر چین اور ایران سے آکسیجن درآمد کرنے کی بات چیت چل رہی ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان میں بحران ضرور ہے لیکن افراتفری نہیں ہے اور حالات جس طرح آگے جارہے ہیں اور معاملہ کم نہ ہوا تو ہمیں مسائل بھی درپیش ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا کی حکومت نے مردان میں مکمل لاک ڈاؤن کیا ہے جہاں کووڈ کی شرح 40 فیصد کے قریب پہنچ گئی ہے۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ قریبی شہروں کو شدید خطرات لاحق ہیں، اسی لیے حکومت نے مردان میں کل سے مکمل لاک ڈاؤن کردیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی سربراہی میں ہوئے این سی او سی کے گزشتہ اجلاس آرمی چیف اور دیگر اسٹیک ہولڈرز شریک تھے، جس میں وزیراعظم کی طرف سے ہدایت کی گئی تھی کہ ہمیں مکمل لاک ڈاؤن کرنا پڑے تو پھر ہمیں پوری تیاری کرنی پڑے گی ضروری اشیا کی فراہمی متاثر نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ کوشش ہے کہ لاک ڈاؤن کی طرف نہ جانا پڑے، اس دفعہ عید کی 5 چھٹیاں بھی کی جا رہی ہے جو ملاکر اس سے زیادہ ہوں گی تاہم اس کا فائدہ ہوگا کہ موقع ملا کیونکہ کووڈ کا 77 فیصد مسئلہ شہروں کا ہے، اس لیے لوگ گاؤں کی طرف جائیں گے تو مسائل کم ہوں گے۔
ویکسین کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ویکسین کے لیے ایک مدت چاہیے اور اس کا اثر آتے ہوئے کچھ مہینے درکار ہوتے ہیں، ہمارا مسئلہ تو یہ ہے کہ اس ہفتے اور اگلے دس دنوں میں کیسے کام کرائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں تقریباً 20 لاکھ لوگ ویکسین لگوا چکے ہیں جبکہ دنیا میں ویکسین لگوانے والوں کی تعداد ایک ارب تک ہوگئی ہے، اس لیے جو لوگ تذبذب کا شکار ہیں ان سے کہوں گا ایک ارب لوگوں نے سمجھا کہ یہ محفوظ معاملہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج کابینہ گردشی قرضے پر بریفنگ ہوئی جس کا مسئلہ ہے کہ نواز شریف کی گزشتہ حکومت نے 50 فیصد ایکسس بجلی پیدا کی جس کی ہمیں ضرورت نہیں تھی، اس کی کئی وجوہات تھیں بدقسمتی سے انہوں نے 40 سے 50 فیصد زائد بجلی کی صلاحیت لگائی، اس سے ہماری لازمی ادائیگی 450 ارب سے بڑھ کر اس سال 900 ارب پر چلے گئے ہیں۔
فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ 2023 میں جب انتخابات کا سال ہوگا تو بجلی کے چارجز بڑھ 1500 ارب روپے ہوں گے یعنی ہم بجلی استعمال کریں یا نہ کریں ہمیں ادائیگی کرنی ہوگی، اس کی وجہ سے بجلی کے نرخ میں 11 روپے 75 پیسے بڑھ کر 16 روپے 44 پیسے اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے ہدایت کی ہے کہ ایسے راستے تلاش کریں جس میں بجلی کی قیمت بڑھائے بغیر اس معاملے کا کوئی حل نکال سکیں۔