اسلام آباد: (سچ خبریں)وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ پنجاب میں گورنر راج کی سمری پر کام شروع کردیا ہے اور اگر میرا پنجاب میں داخلہ بند ہوا تو یہ گورنر راج کا آغاز ہوگا۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہو ئے وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے کہا کہ سیاسی مخالفین کی جانب سے جس طرح کی غیر ذمےدارانہ گفتگو کی جارہی ہے کہ ہم فلاں شخص کے صوبے میں داخلے پر پابندی لگادیں گے، فلاں شخص کے خلاف یوں کردیں گے تو ایسی گفتگو کرنے والوں کو میرا پیغام ہے کہ اگر انہوں نے اس طرح کی کوئی حرکت کی تو گورنر راج کے نفاذ کی سمری وزارت داخلہ نے پیش کرنی ہے اور میں نے اس کے اوپر کام شروع کردیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر میرا پنجاب میں داخلہ بند کیا گیا تو یہ اقدام گورنر راج کے نفاذ کے لیے کافی جواز ہوگا۔
وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان میں درج آرٹیکل 63 اے کو کوئی دوسری جماعت کا بچہ بھی پڑھے گا تو سمجھ جائے گا کہ آئین میں ایک پوری اسکیم دی گئی ہے کہ اگر کوئی قانون ساز، پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دے گا تو وہ ووٹ شمار ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے بھی اپنے فیصلے میں قومی اسمبلی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران کہا تھا کہ قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دوران پارٹی پالیسی کے خلاف ڈالا گیا ووٹ شمار کیا جائے گا۔
رانا ثنااللہ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہ معزز چیف جسٹس آف پاکستان کے ریمارکس تھے کہ ووٹ شمار کیا جائے گا، لیکن جب فیصلہ سامنے آیا تو وہ یہ تھا کہ منحرف ارکان کے ڈی سیٹ ہونے کے ساتھ ان کے ووٹ شمار بھی نہیں کیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ جب منحرف 25 ارکان نے اپنے ووٹ کاسٹ کیے تو نہ صرف انہیں ڈی سیٹ کیا گیا بلکہ ان کے ووٹ بھی شمار نہیں کیے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب منحرف اراکین کا کیس الیکشن کمیشن میں گیا تو منحرف اراکین نے کہا کہ پارٹی کی پارلیمانی پارٹی کا کوئی اجلاس نہیں ہوا تھا، ہمیں اپنی پارلیمانی پارٹی کی جانب سے ووٹ ڈالنے سے متعلق کوئی ہدایت جاری نہیں کی گئی تھی تو جواب میں سیکریٹری جنرل پی ٹی آئی اسد عمر کا خط پیش کیا گیا۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ خط پیش کیا گیا جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ پارٹی سربراہ نے چوہدری پرویز الہٰی کو ووٹ ڈالنے کی ہدایت دی تھی اور کیونکہ منحرف اراکین نے سیکریٹری جنرل کے خط میں دی گئی اس ہدایت کی پیروی نہیں کی، اس لیے منحرف اراکین کو ڈی سیٹ کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب رن آف الیکشن کے موقع پر عدلیہ کی جانب سے اپنے ہی فیصلے کو دوسرے معنی دے دیے گئے ہیں، پہلے کہا گیا تھا کہ پارٹی سربراہ کی ہدایت پر عمل کرنا ہے اور اب کہا گیا ہے کہ پارلیمانی پارٹی کے سربراہ کی بات ماننی ہے۔
ان کا کہنا تھا اس فیصلے کی رو سے تو وہ ڈی سیٹ ہونے والے منحرف اراکین بحال ہوگئے ہیں، وہ تو غلط ڈی سیٹ ہوئے تھے، اس تمام صورتحال نے ملک کی سیاسی صورتحال کو غیر مستحکم کردیا ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اس فیصلے سے معیشت عدم استحکام کا شکار ہوئی ہے، جب عدالتی فیصلے معاملات کو حل کرنے کے بجائے ان کو متنازع کریں گے، اس کے نتیجے میں جب ملک میں سیاسی عدم استحکام، عدم توازن کی فضا پیدا ہوگی تو پھر ڈالر تو چھلانگیں لگائے گا، اسٹاک مارکیٹ نیچے گرے گی، حالات خراب ہوں گے، مہنگائی ہوگی، یہ صورتحال قابل افسوس ہے۔
انہوں نے کہا کہ عدلیہ کا احترام معاشرے کے لیے لازمی امر ہے، ایک عزت دار، باوقار، غیر جانبدار اور غیر متنازع عدلیہ ہر معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے، اس ضرورت کو پورا کیے بغیر کوئی ملک اور معاشرہ آگے بڑھ سکتا ہے نہ ترقی کرسکتا ہے۔