اسلام آباد: (سچ خبریں) فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے لیے کسی بھی قسم کی ایمنسٹی اسکیم زیرِ غور ہونے کو مسترد کر دیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ تردید ایک ایسے وقت میں آئی ہے، جب گزشتہ کچھ ہفتوں سے ڈیلرز مختلف قسم کی گاڑیوں کی قیمتیں بڑھا رہے ہیں۔
ترجمان ایف بی آر آفاق احمد قریشی نے ڈان کو بتایا کہ اس طرح کی کوئی اسکیم زیرِ بحث ہے اور نہ ہی اس پر غور کیا جا رہا ہے۔
آفاق احمد قریشی نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر خبریں گردش کر رہی ہیں کہ ایف بی آر نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے لیے ایمنسٹی اسکیم لانے پر غور کر رہا ہے، یہ محض افواہوں کے سوا کچھ بھی نہیں، مزید کہا کہ پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہے، لہٰذا اس طرح کی اسکیم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
نگران وفاقی حکومت نے کرنسی کے غیر قانونی تاجروں، اسمگلرز اور ان افراد کے خلاف ایکشن لے رکھا ہے جو مقامی یا غیر ملکی کرنسی کی ذخیرہ اندوزی میں ملوث ہیں، اس کے نتیجے میں روپے کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قدر کم ہو کر 277 روپے پر آ گئی ہے، جو ستمبر میں 335 روپے کی بلند ترین سطح پر تھی۔
ایک ٹیکس حکام نے ڈان کو بتایا کہ ایمنسٹی اسکیم کے لیے خاص طور پر ڈیلرز کی طرف سے حمایت کی کوشش جاری ہے، جنہوں نے بلوچستان، خبیر پختونخوا اور گلگت بلتستان میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
2010 میں ایسی گاڑیوں کے لیے ایک ایمنسٹی اسکیم متعارف کروائی گئی تھی، تاہم یہ منصوبہ کرپشن اور قانونی تنازعات کی وجہ سے متاثر ہوا اور اسمگلنگ شدہ گاڑیوں کی آمد کو روکنے یا ایف بی آر کے لیے خاطر خواہ آمدنی کے حصول میں ناکام رہا۔
سینئر کسٹم افسر نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پچھلے تجربے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فی الحال نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کو ریگولرائز کرنے کے لیے کوئی ایمنسٹی اسکیم زیرِ غور نہیں ہے۔
ذرائع کے مطابق ٹیکس ڈپارٹمنٹ کے انکار کے باوجود سیکیورٹی فورسز کی جانب سے نمایاں دباؤ ہے کہ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی ریگولرائزیشن کے لیے کوئی اسکیم متعارف کرانے پر غور کیا جائے۔
ذرائع کے مطابق اس تجویز کی کسٹمز ڈپارٹمنٹ نے مخالفت کی ہے، اور پشاور میں ہونے والے ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں اس معاملے کو اٹھایا گیا تھا۔
چیئرمین آل پاکستان موٹر ڈیلرز ایسوسی ایشن ایچ ایم شہزاد نے ڈان کو بتایا کہ حکومت کو افغانستان سے گاڑیوں کی نقل و حمل میں سہولت فراہم کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنا چاہیے، انہوں نے بتایا کہ 5 سے 10 سال پرانی گاڑیاں افغانستان میں بندر عباس بندرگاہ کے ذریعے داخل ہوتی ہیں۔
انہوں نے اسمگلنگ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے حکومت کو دوبارہ اس طرح کی اسکیموں پر غور کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا، جس سے غیر ظاہر شدہ آمدنی کو قانونی حیثیت دینا ہوتا ہے ، جس کے نتیجے میں قومی محصولات کو نقصان پہنچتا ہے۔
ایچ ایم شہزاد نے کہا کہ مقامی مینوفیکچررز نے قیمتیوں میں غیر معمولی اضافہ کر دیا ہے، مزید کہا کہ آٹو سیکٹر کے لیے حکومت کی پالیسی میں کھلا تضاد ہے۔
سابق وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقے فاٹا، پاٹا، بلوچستان، گلگت بلتستان میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے لیے استثنیٰ آئندہ سال 30 جون کو ختم ہو رہا ہے، ابتدائی طور پر استثنیٰ رواں برس 30 جون کو ختم ہونا تھا لیکن پی ڈی ایم کی حکومت نے اس میں ایک سال کی توسیع کر دی تھی۔