اسلام آباد(سچ خبریں) معروف عالم دین مولانا طارق جمیل نے سیالکوٹ میں سری لنکن منیجر کو بہیمانہ تشدد کرکے قتل اور لاش کو جلانے کے واقعے پر سری لنکن قوم سے معافی مانگ لی مولانا طارق جمیل نے وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی مولانا طاہر اشرفی کے ساتھ سری لنکن ہائی کمیشن کا دورہ کیا اور سری لنکن شہری پریانتھا کمارا کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا۔
بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا طارق جمیل کا کہنا تھا کہ میں سری لنکن ہائی کمشنر اور ان کے توسط سے سری لنکن قوم سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ اسلام پیغام امن ہے اور محبت کا درس دیتا ہے، آپﷺ کا فرمان ہے کہ اگر ایک بے گناہ کے قتل میں پوری دنیا جمع ہوجائے تو اللہ سب کو جہنم میں ڈال دے گا۔
مذہبی اسکالر نے کہا کہ ’میں نے ہائی کمشنر صاحب سے کہا کہ ہم یہاں صرف معافی مانگنے آئے ہیں، جو واقعہ رونما ہوا وہ نہ ہی اسلام کا پیغام ہے اور نہ ہی اسلام کا درس ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ جہالت بہت بڑا اندھیرا ہوتا ہے، ہم قرآن اور آپﷺ سے دور ہوئے اور جو کچھ منبر سے سنا اسی کو حق سمجھ لیا، ہمارے پاس بات کو پرکھنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں قوم کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہتا ہوں کہ اللہ کے واسطے قرآن پڑھو، قرآن نہیں پڑھو گے تو جانوروں سے بھی بدتر ہوجاؤ گے‘۔
یاد رہے کہ 3 دسمبر کو سیالکوٹ میں مشتعل ہجوم نے سری لنکا سے تعلق رکھنے والے مقامی فیکٹری کے منیجر پر توہین مذہب کا الزام عائد کرتے ہوئے بہیمانہ تشدد کرکے قتل کیا اور ان کی لاش نذرِ آتش کردی تھی۔
سیالکوٹ کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) عمر سعید ملک نے کہا تھا کہ مقتول کی شناخت پریانتھا کمارا کے نام سے ہوئی ہے۔ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ فیکٹری کے کچھ کارکن متوفی جنرل مینیجر جو کہ ٹیکسٹائل انجینئر تھے، کو نظم و ضبط کے نفاذ میں سختی کی وجہ سے ناپسند کرتے تھے۔
جمعہ کی صبح معمول کے معائنے کے بعد پریانتھا کمارا نے ناقص کام پر سینیٹری عملے کی سرزنش کی تھی۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ چونکہ فیکٹری میں رنگ ہونے والا تھا اس لیے مینیجر نے دیواروں سے پوسٹر ہٹانا شروع کر دیے ان میں سے ایک پوسٹر میں کسی مذہبی جلسے میں شرکت کی دعوت تھی جس پر ورکرز نے اعتراض کیا۔
ذرائع نے بتایا کہ پریانتھا کمارا نے معافی کی پیشکش کی، لیکن ایک سپروائزر نے کارکنوں کو اکسایا، جنہوں نے ان پر حملہ کردیا۔جس کے بعد پریانتھا کمارا چھت کی طرف بھاگے اور سولر پینل کے نیچے چھپنے کی کوشش کی لیکن مشتعل کارکنوں نے انہیں پکڑ لیا اور وہیں مار ڈالا۔
مظاہرین نے پریانتھا کو تھپڑ، ٹھوکریں اور مکے مارے اور لاٹھیوں سے تشدد کیا اور وزیرآباد روڈ پر واقع فیکٹری سے گھسیٹ کر باہر لائے جہاں ان کی موت واقع ہوگئی اور اس کے بعد ہجوم نے ان کی لاش کو آگ لگادی تھی۔
افسوسناک واقعے پر ملک بھر کے سیاسی و سماجی رہنماؤں، اسکالرز اور سول سوسائٹی کے اراکین نے مذمت کی اور ملزمان کو جلد از جلد سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا۔
وزیر اعظم عمران خان نے اسے ’ہولناک حملہ‘ قرار دیتے ہوئے ٹوئٹ کیا کہ ’یہ پاکستان کے لیے شرمندگی کا دن ہے، میں خود تحقیقات کی نگرانی کر رہا ہو اور اس میں غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، قانون کے دائرہ کار میں تمام ذمہ داران کو سزا دی جائے گی۔‘
پریانتھا کمارا کی میت 6 دسمبر کو ان کے ملک سری لنکا بھیجی گئی تھی واقعے میں ملوث درجنوں ملزمان کو گرفتار کیا جاچکا ہے جو ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں ہیں۔