مشرقِ وسطیٰ کی جنگ کے سایے میں دبتے پاکستان کے اندرونی مسائل

?️

اسلام آباد: (سچ خبریں) ہمارے خطے کے اردگرد ہونے والی جنگوں کی وجہ سے بجٹ اور اس پر ہونے والی بحث کو زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ اس کے باوجود جو لوگ توجہ دے رہے ہیں وہ مایوسی کا شکار ہیں کہ حکومت نے بجٹ میں بڑی تبدیلیاں یا اصلاحات لانے کے موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا حالانکہ حالات ان کے حق میں تھے۔

کہا جارہا ہے کہ حکومت اس وقت آرام دہ پوزیشن میں ہے جوکہ بھارت کے خلاف جیت کے بعد خود کو پُراعتماد اور کامیاب محسوس کررہی ہے، اس کے فوج کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں اور معیشت بھی مستحکم ہے جو دیوالیہ ہونے کی حالت میں نہیں جس کا مطلب ہے کہ آئی ایم ایف بھی خوش ہے۔

داخلی طور پر بھی حکومت اپنے آپ کو محفوظ محسوس کررہی ہے کیونکہ اپوزیشن اب خطرہ نہیں۔ عمران خان جیل میں ہیں جن کی رہائی کے امکانات کم ہیں، ان کی پارٹی ان کے رہنماؤں کی طرح دب چکی ہے اور عدالتیں تو اب واقعی حکومت کو چیلنج نہیں کر سکتیں۔ اس سب کی وجہ سے کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ حکومت کو اب طاقتور گروہوں یا امیروں کی خوشنودی کے لیے پیسہ خرچ کرنے کے بجائے سخت اصلاحات اور مشکل فیصلے کرنے کی آزادی حاصل ہے۔

لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ زائد توقعات ماضی کے حقائق پر نہیں بلکہ امید پر قائم کی گئیں۔

زیادہ سنجیدہ نوٹ پر یہ سوچ کر کہ حکومت کے پاس کوئی بڑے سیاسی چیلنجز نہیں ہیں، بڑے منظرنامے کے بجائے چھوٹی تفصیل پر توجہ دینے کے مترادف ہے۔ یہ قابل فہم ہے کیونکہ پاکستان میں ہم عام طور پر اعلیٰ سطح کی سیاست پر توجہ مرکوز کرتے ہیں جیسے کہ احتجاج، پارلیمنٹ، عدالتی لڑائیاں اور فرض کریں کہ اگر اپوزیشن ہی متحرک نہیں تو حکومت کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ خاص طور پر جب اسٹیبلشمنٹ اور حکومت ایک پیج پر ہوں۔

لیکن زیادہ غور کریں تو مسئلہ برقرار ہے جو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وہ ووٹرز اور حامی ہیں جو عوام میں غصے اور بڑھتے بیگانگی کے احساس سے پیدا ہورہے ہیں۔ یہ حامی یا ووٹرز خوف کی وجہ سے خاموش تو ہوچکے ہیں جبکہ انہوں نے جس پارٹی کو ووٹ دیا وہ بھی غیرمؤثر ہوچکی ہے لیکن ان کے جذبات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

اگرچہ ٹی وی پر ایسا لگتا ہے کہ پی ٹی آئی غیرمتعلقہ ہوچکی اور معیشت بہتر ہے لیکن لوگ جانتے ہیں کہ یہ مکمل سچ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ کچھ لوگ وزیراعلیٰ پنجاب کے کام کی تعریف کرنے اور بلاول بھٹو زرداری کو ایک ابھرتا ہوا لیڈر بھی قرار دیتے ہیں۔

لیکن یہ الفاظ اتنے ہی مؤثر ہیں کہ جتنا ایک ایئر کنڈیشنز کام کرنا چھوڑ دیتا ہے کہ جب آپ گرمی میں باہر نکلتے ہیں۔ دروازے سے باہر نکل کر آپ جس طرح گرمی سے نہیں بچ سکتے اسی طرح اس حقیقت سے بھی فرار کی راہ نہیں کہ اس وقت اگر انتخابات کروائے گئے تو اس کے نتائج 2024ء سے مختلف نہیں ہوں گے۔ اور آج کی مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) جنرل پرویز مشرف کے دور میں مسلم لیگ (ق) کی طرح ہیں یعنی وہ جماعتیں جو حقیقی عوامی حمایت کے بجائے سرپرستوں کی مدد سے اقتدار میں رہیں۔

اور یہی وجہ ہے کہ یہ جماعتیں سخت سیاسی فیصلے کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں بالکل اسی طرح جس طرح وہ 2022ء یا 2018ء میں نہیں کرپائیں۔ کمزور حکومتیں اور ان کے حامی، عوام کے خاموش غصے سے ہمیشہ پریشان رہتے ہیں۔ لہٰذا وہ سخت فیصلے کر کے غصے کی بنیادی وجوہات کو ٹھیک کرنے کے بجائے غصے سے نمٹنے میں جدوجہد کرتے ہیں۔

تو ہمارے پاس جو بچا ہے وہ ایک ایسا بجٹ ہے جہاں ماضی کی طرح حکومت ووٹرز کی حمایت حاصل کرنے کے لیے پیسہ خرچ کرتی رہتی ہے، سیاستدانوں اور بااثر شخصیات کو وفادار رکھنے کے لیے ترقیاتی فنڈز دیتی ہے، بیوروکریٹس کی تنخواہیں بڑھاتی ہے تاکہ وہ حکومت کے گھناؤنے کام کرتے رہیں اور ججز کی تنخواہوں میں اضافہ کرتی ہے تاکہ وہ اپنی ضمیر کی آوازوں کو دبا سکیں۔ ایسے بجٹ میں نجکاری جیسی چیزوں سے گریز کیا جاتا ہے۔ کوئی بھی سرکاری ملازمین کو پریشان کرنے کا خطرہ مول نہیں لینا چاہتا کیونکہ اگر وہ سڑکوں پر احتجاج کے لیے نکلیں گے تو ممکن ہے دوسرے لوگ بھی ان کے ساتھ شامل ہوجائیں۔

کوئی بھی متنازعہ فیصلہ جس سے طاقتور یا خصوصی مفادات کے گروپس کے ردعمل کا خطرہ ہو، اسے واپس لے لیا جاتا ہے۔ پچھلے سال تاجروں کو ٹیکس ادا کرنے کا اعلان کیا گیا تھا اور وزیر خزانہ نے ایک سے زائد بار اپنی تقاریر میں اس کا ذکر کیا۔ اس سال ایسا لگتا ہے کہ یہ اب جیسے کوئی مسئلہ نہیں رہا کیونکہ کوئی بھی اس پر بحث نہیں کررہا ہے۔ اس سال توجہ صرف اس بات کو یقینی بنانے پر مرکوز ہے کہ امیر لوگ اس سے کم ٹیکس ادا نہ کریں جتنا انہیں دینا چاہیے۔

حال ہی میں ایک اخبار نے اطلاع دی کہ حکومت نان فائلرز کے لیے جن سزاؤں کی منصوبہ بندی کررہی تھی، ان میں بھی نرمی لائی گئی ہے حالانکہ اس نے ہمیشہ ہی نان فائلرز کے معاملے پر سختی کی ہے۔ ایک بار پھر ریئل اسٹیٹ زد میں نہیں آیا۔ تنخواہوں میں اضافے اور پینشن کی اصلاحات کا اطلاق غیر مساوی طور پر کیا گیا ہے کیونکہ جو حکومتیں بناتے یا توڑتے ہیں وہ دوسروں کے مقابلے میں برتری رکھتے ہیں اور ان کی یہ برتری برقرار رہے گی۔

پیپلزپارٹی نے بجٹ اور اس سے عوام کو درپیش مسائل پر ملے جلے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ملاقاتیں ہوئیں اور دونوں اتحادی ایک معاہدے پر پہنچ گئے جس میں دیگر چیزوں کے ساتھ اس بات کو بھی یقینی بنایا کہ وفاقی حکومت سندھ میں یونیورسٹیز کے لیے مختص رقم کو تقریباً دوگنا کر دے گی۔ لیکن پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب کے لیے فنڈز کی فراہمی کے معاملے میں حکومت پر مہربان رہی اور اس نے حکومت کا وعدہ قبول کیا کہ اس پر اگلے سال بات کی جائے گی۔ بلاول بھٹو زرداری نے پارلیمنٹ میں اپنی تقریر میں بھی اس کا ذکر کیا۔

ان میں سے واقعی کوئی نمایاں معاشی فیصلے نہیں ہیں بلکہ یہ تو اس قیمت کی طرح ہیں جو آپ ڈاکوؤں کے زیرِ کنٹرول علاقوں سے گزرنے کے لیے ادا کرتے ہیں۔ حقیقی اصلاح کے بجائے اتحادیوں کو خوش رکھنا مقصد نظر آتا ہے جبکہ ہر صوبائی حکومت اپنی اپنی پوزیشن کے تحفظ پر متوجہ ہے۔

صوبوں کے ’ٹیکس فری بجٹ‘ کے دعووں کو ہی لے لیں، گویا لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ ایسا صرف اس لیے ممکن ہے کیونکہ وفاقی حکومت اخراجات کو پورا کرنے اور اپنے منصوبوں کو فنڈز دینے کے لیے ہر چیز پر ٹیکس بڑھا رہی ہے۔ مثال کے طور پر پنجاب میں حکومت نے وزیراعلیٰ اور ان کے والد کے نام سے منسوب کئی نئے منصوبوں کا اعلان کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی پروموشنل مہمات پر عوامی پیسہ خرچ کرنے کے حکومت کے حق کے تحفظ کے لیے نئے قوانین متعارف کروائے جانے کی اطلاعات ہیں۔

حقیقی اصلاحات تب ہی ہوں گی جب لوگ یا تمام اہم گروہ متفق ہوں اور تبدیلی کے ساتھ آنے والے مسائل کے اشتراک کے لیے تیار ہوں۔ صرف لوگوں کو طاقت کے ذریعے خاموش رکھنا کافی نہیں ہے کیونکہ یہ صرف اعتماد کا جھوٹا احساس پیدا کرتا ہے، حقیقی اعتماد نہیں۔

مشہور خبریں۔

ہمیں انصاف نہیں مل رہا کوئی فائدہ نہیں ہو رہا ، گرفتار کرنا ہے تو کرلیں، علیمہ خان

?️ 16 جون 2025لاہور: (سچ خبریں) بانی پی ٹی آئی کی ہمشیرہ علیمہ خان نے

عام انتخابات: 3 ہزار 200 سے زائد امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد

?️ 2 جنوری 2024اسلام آباد:(سچ خبریں) آئندہ ماہ 8 فروری کو عام انتخابات کے انعقاد

پاکستانی حدود سے 6 بھارتی ’اسمگلرز‘ گرفتار کرلیے گئے، آئی ایس پی آر

?️ 22 اگست 2023اسلام آباد: (سچ خبریں) پاکستان رینجرز نے بھارت کی جانب سے اسمگلنگ

نیتن یاہو دوبارہ عدالت سے فرار

?️ 25 فروری 2025سچ خبریں: یہ وہ سرخی ہے جسے عبرانی میڈیا نے پیر کی شام

اسرائیل کا پہلا چیلنج ایران کا سامنا ہے: گینٹز

?️ 12 جولائی 2022سچ خبریں:   صیہونی حکومت کے جنگی وزیر بینی گانٹز نے اس حکومت

 نیتن یاہو نے شاباک کے نئے سربراہ کی تقرری کا متنازعہ فیصلہ کیوں واپس لیا ؟  

?️ 2 اپریل 2025 سچ خبریں:صیہونی میڈیا کا کہنا ہے کہ قابض وزیر اعظم بنیامین

اسرائیل کی حمایت پر احتجاجاً تیسرے امریکی اہلکار کا استعفیٰ

?️ 29 مئی 2024سچ خبریں: واشنگٹن پوسٹ نے امریکی حکام کے حوالے سے گزشتہ شب اعلان

صدام کو پکڑنے پر مبنی امریکی آپریشن کی کہانی فرضی تھی: امریکی فوج کےعراقی مترجم

?️ 30 دسمبر 2021سچ خبریں:عراق پر اپنے حملے کا جواز پیش کرنے اور عالمی رائے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے