لاہور(سچ خبریں) پاکستان مسلم لیگ قائداعظم (پی ایم ایل کیو) نے چیئرمین سینیٹ کے چناؤ میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دینے سے معذرت کا اظہار کیا ہے یاد رہے کہ سال 2008 سے 2013 تک پاکستان پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں ان کی اتحادی رہنے والی پی ایم ایل کیو سے تعلق رکھنے والے وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ نے کہا کہ ان کی جماعت اپنی اتحادی جماعت پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے خلاف نہیں جاسکتی۔
یہ بات مسلم لیگ (ق) کے رہنماؤں چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی کی چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو کے ساتھ ملاقات میں سامنے آئی، جنہوں نےبظاہر پی ٹی آئی کے لیے نیا محاذ کھولنے کی کوشش کے سلسلے میں مسلم لیگ(ن) پنجاب کے صد حمزہ شہباز سے علیحدہ ملاقات بھی کی۔
اس پیش رفت سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ دونوں ملاقاتوں کے دوران پنجاب میں وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی حکومت تبدیل کرنے اور 12 مارچ کو چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں تعاون پر تبادلہ خیال ہوا کیوں کہ پی ڈی ایم پی ٹی آئی کو مرکز اور صوبے دونوں میں کمزور کرنے کے لیے اس کے اتحادیوں کو جیتنا چاہ رہی ہے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ چیئرمین پی پی پی نے مسلم لیگ (ن) کو پنجاب میں انِ ہاؤس تبدیلی پر راضی کرنے کی کوشش کی حتیٰ کہ اگر وزیراعلیٰ کا عہدہ موجودہ حکومت کےی کسی اتحادی جماعت ہی کو کیوں نہ دینا پڑے۔
اس حوالے سے دعویٰ کیا گیا کہ حمزہ شہباز نے پی ڈی ایم کے آج اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس کے دوران آپشنز پر بات کرنے پر رضا مندی ظاہر کی ہے۔
ذرائع کے مطانق چیئرمین پی پی پی نے چوہدری برادران سےسینیٹ چیئرمین شپ کے لیے پی ڈی ایم امیدوار کی حمایت کے سلسلے میں ملاقات کی تھی لیکن ساتھ پنجاب حکومت کی تبدیلی میں کردار ادا کرنے کے لیے ان کی رضامندی کا بھی جائزہ لیا۔
دونوں ملاقاتوں کے دوران بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ سابق وزیراعظم اور نو منتخب سینیٹر یوسف رضا گیلانی، قمر زمان کائرہ کے علاوہ پارٹی کے دیگر رہنما بھی موجود تھے۔
خیال رہے کہ 3 مارچ کو ہونے والے سینیٹ انتخاب کے دوران اسلام آباد کی نشست پر پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار یوسف رضا گیلانی نے حکمراں جماعت کے ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کو غیر متوقع طور دے دی تھی۔
اس اپ سیٹ شکست پر وزیراعظم عمران خان نے اپنی پارٹی کے 15 سے 16 اراکین کے بِکنے کا اعتراف کیا تھا ساتھ ہی حکومت کا اعتماد برقرار رکھنے کے لیے انہوں نے 6 مارچ کو قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ بھی حاصل کیا تھا۔