اسلام آباد:(سچ خبریں) صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے فنانس (سپلیمنٹری) بل 2023 کی منظوری دے دی، جسے عام طور پر منی بجٹ کہا جاتا ہے۔حکومت تیزی سے عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی شرائط کو مکمل کر رہی ہے تاکہ معاشی بیل آؤٹ پیکیج مل سکے اور ڈیفالٹ کے خطرے کو کم کیا جاسکے۔
وزیر اعظم سیکریٹریٹ نے قومی اسمبلی سے بل کی منظوری کے بعد اسے ایوان صدر کو منظوری کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ ایوان صدر کے پریس ونگ سے جاری بیان کے مطابق بل کی منظوری آئین کے آرٹیکل 75 کے تحت دی گئی ہے۔ آرٹیکل 75 (1) کے تحت صدر کو اختیار نہیں ہے کہ فنانس بل پر اعتراض لگائے یا اسے مسترد کرے۔
آرٹیکل میں لکھا ہے کہ جب بل منظوری کے لیے صدر کو بھیجا جاتا ہے تو صدر پاکستان 10 دن کے اندر (اے) بل منظور کرے گا؛ یا (بی) اور اگر وہ ’مَنی بل‘ نہ ہو تو اسے مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ) کو پیغام کے ساتھ واپس بھیجیں، جس میں درخواست کی گئی ہو کہ بل یا اس کی کسی مخصوص شق پر نظر ثانی کی جائے اور پیغام میں دی گئی ترمیم کی تجویز پر غور کیا جائے۔
تمام اہم پیشگی شرائط پر عمل کرنے کے بعد پاکستان رواں ہفتے آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول کا معاہدہ ہوتا دیکھ رہا ہے، جس کے بعد دیگر دوطرفہ و دیگر قرض دہندگان سے رقم کی آمد کی راہ ہمور ہو جائے گی۔
قبل ازیں ایک ذرائع نے بتایا تھا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اسٹاف کی سطح کا معاہدہ 28 فروری کو ہو جائے گا جس کے بعد آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کا اجلاس مارچ کے پہلے ہفتے میں ہونے کی توقع ہے۔
آئی ایم ایف نے پاکستان سے 170 ارب روپے کی اضافی ٹیکس عائد کرنے کا مطالبہ کیا تھا، تاہم 115 ارب روپے کے ٹیکس اقدامات کا بڑا حصہ پہلے ہی 14 فروری سے ایس آر اوز کے ذریعے نافذ کیا گیا تھا، صدر کی باضابطہ منظوری کے بعد باقی 55 ارب روپے کی ٹیکس کے اقدامات کو نافذ کیا جائے گا۔
خیال رہے کہ 15 فروری کو وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے آئی ایم ایف کی شرائط پر مبنی بجٹ پیش کیا تھا، جس میں جنرل سیلز ٹیکس 18 فیصد اور لگژری آئٹمز پر سیلز ٹیکس 17 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی تھی تاہم بنیادی اشیائے ضروریہ پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔
پاکستان کو فنڈز کی شدید ضرورت ہے کیونکہ اسے معاشی بحران کے چیلنجز درپیش ہیں جبکہ مرکزی بینک کے پاس زرمبادلہ کے ذخائر 3 ارب ڈالر کے قریب ہیں، جس سے بمشکل تین ہفتے کی درآمدات کی جاسکتی ہیں۔
معاہدے کے بعد پاکستان کو 1.2 ارب ڈالر کی قسط ملے گی، اس کے علاوہ دوست ممالک و دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے فنڈز ملنے کی راہ بھی ہموار ہوگی۔