اسلام آباد: (سچ خبریں) حکومت نے تسلیم کیا ہے کہ سیاسی عدم استحکام، درآمدی کنٹرول اور کڑی اقتصادی پالیسیاں ملک میں معاشی تنزلی کا سبب بنیں جس کا ذمہ دار حکومت سیلاب اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو ٹھہراتی رہی ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مخلوط حکومت کو توقع ہے کہ سیاسی استحکام سے ملک کو معاشی بحالی اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں مدد ملے گی۔
یہ وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی زیرسربراہی اتحادی حکومت کی اقتصادی ٹیم کی جانب سے پاکستان اکنامک سروے 23-2022کے حصے کے طور پر رواں مالی سال کے اقتصادی جائزے کے اہم موضوعات میں سے ایک ہے جو آج پیش کیا جائے گا اور اس کے بعد کل بجٹ کا اعلان کیا جائے گا۔
آئندہ مالی سال کے اہداف کے ساتھ میکرو اکنامک کارکردگی کا وسیع جائزہ گزشتہ روز قومی اقتصادی کونسل (این ای سی) سے شیئر کیا گیا، حکومت 3.5 فیصد کی شرح نمو کے ہدف کے ساتھ آئندہ برس اقتصادی منظرنامے کو مثبت قرار دے رہی ہے۔
دستاویز میں کہا گیا ہے کہ ترقی کا انحصار سیاسی استحکام، بیرونی اکاؤنٹس اور عالمی سطح پر تیل اور اجناس کی قیمتوں میں ممکنہ گراوٹ کے درمیان میکرو اکنامک استحکام پر ہے، عالمی سطح پر مہنگائی میں کمی کے پیش نظر آئندہ برس ملکی سطح پر مہنگائی کی شرح میں بتدریج کمی متوقع ہے تاہم یہ دوہرے ہندسے میں ہی رہے گی۔
معیشت کے تینوں بڑے شعبوں (زراعت، صنعت اور سروسز) میں وسیع پیمانے پر ناکامی دیکھی گئی کیونکہ رواں مالی سال کے دوران جی ڈی پی میں 5 فیصد کے ہدف کے برعکس صرف 0.3 فیصد اضافہ ہوا۔
موجودہ حکومت کی جانب سے پچھلی حکومت کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے کہ وہ ایک ایسی معیشت چھوڑ کر گئی ہے جسے شدید معاشی عدم توازن، سب سے زیادہ قرضے، غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی، روپے کی 11 فیصد بےقدری، بڑے پیمانے پر گردشی قرضے، بھاری مالیاتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اور ساڑھے 84 ارب ڈالر کے بھاری درآمدی بوجھ کا سامنا ہے۔
لیکن حکومت یہ تسلیم کرتی ہے کہ سیاسی عدم استحکام، آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی میں تاخیر اور عالمی سطح پر شرح نمو میں اضافے کے تاریک امکانات نے سرمایہ کاروں کی اعتماد شکنی کی۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو مہنگائی میں اضافے کی وجہ سے سال بھر سخت مانیٹری پالیسی اپنانی پڑی جس کے سبب معاشی سرگرمیاں متاثر ہوئیں۔
حکومت کا مؤقف ہے کہ موجودہ حکومت زرمبادلہ کے کم ہوتے ذخائر پر قابو پانے کے لیے درآدمی پابندیوں کا سخت فیصلہ لینے پر مجبور ہوئی، نتیجتاً کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 76 فیصد گر گیا اور دیوالیہ کو روکنے کا موقع مل گیا۔
حکومت کا استدلال ہے کہ 22-2021 میں معاشی ترقی کے فروغ کے لیے اپنائے جانے والے معاشی اصول پائیدار نہیں تھے، سیلاب کے سبب شعبہ زراعت بری طرح متاثر ہوا اور صنعتی شعبے کو دوہرے خطرے کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ سیلاب کی وجہ سے خام مال کی سپلائی چین میں رکاوٹ نے درآمدی پابندیوں کے اثرات کو دگنا کردیا۔
حکومت کا کہنا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے سپلائی میں رکاوٹ نے صنعت اور سروسز کے شعبوں کو بری طرح متاثر کیا اور اس کے علاوہ سڑکوں اور ریلوے ٹریک جیسے اہم ٹرانسپورٹ انفرااسٹرکچر کو بھی نقصان پہنچا۔
صنعتی شعبے کو بھی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ درآمدی پابندیوں نے ضروری خام مال، درمیانی اشیا اور مشینری کو درآمد کرنا مشکل بنا دیا تھا۔
اس میں کہا گیا ہے کہ لارج اسکیل مینوفیکچرنگ رواں برس 8 فیصد سکڑ گئی جبکہ گزشتہ سال یہ 10.6 فیصد تھی، قدرتی گیس، خام تیل، دیگر معدنیات اور ان کی تلاش میں کمی کی وجہ سے کان کنی اور اس کا ذیلی شعبہ بھی 3 فیصد کے ہدف کے برعکس 4.4 فیصد کم ہوا۔
انویسٹمنٹ-ٹو-جی ڈی پی ریشو 22-2021 میں 15.7 فیصد سے کم ہو کر 23-2022 میں 13.6 فیصد پر آگیا، سرمایہ کاری برائے نام 10.2 فیصد بڑھی لیکن مہنگائی کی وجہ سے حقیقی معنوں میں اس میں 15.4 فیصد کمی واقع ہوئی۔
مزید برآں جولائی تا اپریل کے دوران نجی کاروباروں کی جانب سے کریڈٹ آف ٹیک کم ہو کر 158 ارب روپے ہو گیا جو ایک سال پہلے 11 کھرب روپے تھا، ورکنگ کیپیٹل کا کریڈٹ 576 ارب روپے سے کم ہو کر 170 ارب روپے ہو گیا جبکہ فکسڈ انویسٹمنٹ کا کریڈٹ ایک سال پہلے 350 ارب روپے ہونے کے برعکس کم ہو کر 182 ارب روپے رہ گیا۔
رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ (جولائی تا مارچ) میں مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 3.6 فیصد رہا جو ایک سال پہلے 3.9 فیصد تھا، کل آمدنی میں 18.1 فیصد اضافہ ہوا لیکن ٹیکس ٹو جی ڈی پی کا تناسب 7.2 فیصد سے کم ہو کر 6.6 فیصد رہ گیا۔
جولائی تا مارچ کے دوران کُل اخراجات میں 18.7 فیصد اضافہ ہوا جس کی بنیادی وجہ کرنٹ اخراجات میں 25.3 فیصد اضافہ ہے، مالیاتی خسارہ بنیادی طور پر کرنٹ اخراجات میں اضافے سے پیدا ہوا ہے۔
مجموعی قرضے مارچ کے آخر تک 20.3 فیصد بڑھ کر 592 کھرب روپے (جی ڈی پی کا 88.9 فیصد) ہو گئے جو گزشتہ سال جون کے آخر تک 492 کھرب روپے (جی ڈی پی کا 73.9 فیصد) تھے۔
جولائی سے مارچ تک ملکی قرضہ 12.8 فیصد اضافے کے ساتھ 311 کھرب روپے سے بڑھ کر 351 کھرب ہو گیا جبکہ بیرونی قرضے 33.1 فیصد اضافے کے ساتھ 182 کھرب روپے سے بڑھ کر جولائی سے مارچ تک 242 کھرب روپے ہو گئے۔
جولائی تا اپریل کے دوران اسٹیٹ بینک نے مہنگائی پر قابو پانے اور قیمتوں میں استحکام حاصل کرنے کے لیے پالیسی ریٹ 13.75 فیصد سے بڑھا کر 21 فیصد کر دیا، جولائی تا اپریل میں اوسط مہنگائی 28.2 فیصد رہی جو ایک سال پہلے 11 فیصد تھی۔
استحکام کے لیے ایندھن اور بجلی کی سبسڈی کو تبدیل کرکے گھریلو توانائی کی قیمتوں (گیس، بجلی اور ایندھن) میں اضافہ کیا گیا، جس نے براہ راست اور بالواسطہ طور پر مہنگائی کا بوجھ بڑھا دیا۔
ٹرانسپورٹ کے زیادہ اخراجات نے بھی مہنگائی میں اضافہ کیا کیونکہ پٹرولیم لیوی دوبارہ عائد کیے جانے کے بعد پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔
اپریل تک 10 مہینوں کے دوران درآمدات 45 ارب ڈالر رہیں جو کہ ایک سال پہلے ساڑھے 58 ارب ڈالر سے 23 فیصد کم ہیں، اس کی بنیادی وجہ ایل سیز کھولنے پر حکومت کی پابندیوں، غیر ملکی زرمبادلہ اور سیاسی عدم استحکام سے متعلق غیر یقینی صورتحال ہے۔