کراچی: (سچ خبریں) سندھ ہائیکورٹ نے چیف سیکریٹری اور کے ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل کو شہر کی اراضی کی حفاظت اور شہر بھر سے تجاوزات ختم کرنے کے لیے ادارے کی استعداد بڑھانے سے متعلق اپنی الگ الگ تجاویز کے ساتھ 30 مارچ کو طلب کرلیا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس عقیل احمد عباسی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سرجانی ٹاؤن کے رہائشی کی جانب سے نجی قبضہ گروپ سے ان کی اراضی واگزار کرانے کے لیے صوبائی حکومت، کے ڈی اے اور دیگر عہدیداروں کو حکم دینے کے لیے دائر درخواست پر سماعت کی۔
سندھ ہائیکورٹ کے دو رکنی بینچ نے اگلی سماعت میں منصوبہ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر منصوبہ پیش کرنے میں ناکام ہوئے تو ان کے خلاف حکم عدولی کا فیصلہ کیا جائے گا۔
سماعت کے دوران بینچ نے کہا کہ گزشتہ سماعت میں رینجرز اور پولیس کو ہدایت کی تھی کہ متعلقہ زمین سے غیرقانونی قبضہ ختم کرانے کے لیے کے ڈی اے کی مدد کریں اور ساتھ ہی گیس، پانی اور سیوریج کی لائنیں بھی ختم کرنے کے بھی احکامات دیے گئے تھے۔
عدالت نے 30 روز میں حکم کی تعمیل کرنے کی مہلت دیتے ہوئے اپنے دفتر سے کہا تھا کہ اس فیصلے سے ڈائریکٹر جنرل رینجرز، ڈی آئی جی ویسٹ اور دیگر اداروں کو آگاہ کیا جائے۔
سماعت کے دوران کے ڈی اے کے عہدیدار پیش ہوئے اور رپورٹ جمع کرائی، جس میں تصدیق کی گئی کہ مذکورہ زمین درخواست گزار کی ہے لیکن بعض لوگوں نے غیرقانونی طریقے سے قبضہ کر رکھا ہے اور ساتھ ہی تمام کنکشنز بھی حاصل کرلی ہیں۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ عدالتی حکم کے مطاب زمین واگزار کرنے کے لیے رینجرز اور پولیس سے کے ڈی اے کو کارروائی کے لیے تعاون فراہم کرنے کا کہا گیا لیکن وہ مدد کرنے میں ناکام ہوئے۔
عدالت نے بتایا کہ احکامات کے باوجود اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
سماعت کے دوران بینچ نے کہا کہ بظاہر کے ڈی اے کے پاس اسٹیٹ اینڈ انفورسمنٹ کا الگ شعبہ ہے، جو کے ڈی اے کی زمین کا قبضہ حاصل کرنے سے متعلق امور ریگیولیٹ کرتا ہے اور کے ڈی اے کی اراضی پر ہونے والے قبضے بھی ختم کراتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ الگ شعبہ ہونے کے باوجود کے ڈی اے کو اپنی قانونی ذمہ داریاں نبھانے کے لیے باقاعدہ عملہ، فورس یا آلات دستیاب نہیں ہیں۔
سندھ ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے کہا کہ اس صورت حال میں ہم ڈائریکٹر جنرل کے ڈی اے اور صوبائی حکومت کے چیف سیکریٹری حکومت سندھ کو اگلی سماعت میں چند تجاویز کے ساتھ پیش ہونے کی ہدایت کرتے ہیں کہ کے ڈی اے کے مذکورہ شعبے کی صلاحیت میں کیسے اضافہ کیا جائے تاکہ کے ڈی اے حکام اپنی زمین کی حفاظت اور اپنے بل بوتے اور قانونی کے مطابق قبضے چھڑانے کے قابل ہوں۔
عدالت نے کہا کہ اس طرح کے ڈی اے قانون نافذ کرنے والے دوسرے اداروں کو کہنے کے بجائے خود کارروائی کرسکیں کیونکہ دوسرے ادارے صرف محدود کیسز میں تعاون فراہم کرسکتے ہیں جہاں عدالت انہیں یہ سمجھتے ہوئے ہدایت کرتی ہے کہ اس سے کے ڈی اے کی قانونی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
جسٹس عقیل احمد عباسی کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے اگلی سماعت 30 مارچ کو مقرر کرتے ہوئے متعلقہ پولیس اور رینجرز حکام کو کے ڈی اے انتظامیہ کی مدد کرنے اور عدالت کے احکامات پر عمل درآمد یقینی بنائیں۔