براڈشیٹ کیس نے کرپشن کے خلاف بولنے والوں کا چہرہ بے نقاب کر دیا ہے: فضل الرحمٰن

فضل الرحمان

براڈشیٹ کیس نے کرپشن کے خلاف بولنے والوں کا چہرہ بے نقاب کر دیا ہے: فضل الرحمٰن

پشاور(سچ خبریں) پشاور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ براڈشیٹ نے ان کی کارکردگی کا پول کھولا ہے، قوم کے اتنے زیادہ پیسے کا نقصان کس پاداش میں ہوا ہے یہ ان کی نااہلیوں کی وجہ سے ہے، ملائیشیا میں ہمارا جہاز ان کی نااہلیوں کی وجہ سے روکا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان بین الاقوامی سطح پر اتنی سبکی کبھی نہیں اٹھانی پڑی جتنی آج اس کے دور میں پاکستان رسوا اور ذلیل ہو رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے وقت میں ضروری ہے کہ نام نہاد حکومت کا خاتمہ ہو اور اس کے لیے دوبارہ انتخابات کرائے جائیں، ایک صاف اور شفاف انتخاب کے ذریعے قوم کی حقیقی نمائندہ حکومت اس ملک میں ناگزیر ہو چکی ہے اور مزید قوم کا امتحان نہ لیا جائے۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اس ملک کو کرب سے نکلنا قومی مسئلہ ہے، ریاست اس وقت خطرے میں ہے، ایک قوم بن کر ہم نے اس ملک کو بچانا ہے، اگر یہ موجود حکومت رہتی ہے تو ملک کی بقا کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی ہے لہٰذا اس ملک کو بچانا ہے کیونکہ ہم درحقیقت پاکستان کی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ ان نااہلوں سے اس قوم کو نجات دلانا قومی فریضہ بن چکا ہے اور ہم اس قومی فریضے کو ادا کررہے ہیں۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ نے کہا کہ پی ڈی ایم اس وقت متحد ہے، ایک ہوتا ہے اختلاف اور ایک ہوتا ہے اختلاف رائے، اختلاف رائے پر بغلیں نہیں بجانے چاہئیں، یہ تو بار بار ہو چکا ہے، اس کے باوجود پی ڈی ایم متحد بھی ہے، حالات کے مطابق بہترین طریقے سے آگے بڑھ رہا ہے اور 5 فروری کو مظفرآباد میں کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں گے اور بہت بڑا مظاہرہ ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں، کرپشن میں اضافہ ہوا ہے اور ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کرپشن کا خاتمہ کرنے والوں کا چہرہ بے نقاب کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکمران جیسے بے وقوف تھے، اسی طرح اپنے آپ کو بے وقوف بناتے چلے جائیں گے اور اپنے طور پر خوش ہوتے چلے جائیں گے کہ شاید ہم بہت عقلمندی کا مظاہرہ کررہے ہیں حالانکہ حماقتوں کے دریا میں ڈوبے ہوئے یہ حکمران اپنے مستقبل سے بے پروا ہیں، ان کا مستقبل تاریک ہے اور پاکستان کے عوام کی جدوجہد اور احساسات سے اس ملک کے مستقبل کو روشن بنایا جائے گا۔

سینیٹ انتخابات میں پی ڈی ای میں شریک جماعتوں کی بتدریج شرکت کے حوالے سے سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ابتدا میں اس حوالے سے ایک سوچ تھی کہ اگر استعفے آ جاتے ہیں اور سندھ اسمبلی ٹوٹ جاتی ہے تو پھر انتخابی حلقہ ختم ہو جاتا ہے اور سینیٹ کے الیکشن نہیں ہو سکیں۔

انہوں نے کہا کہ بعد میں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن) اور جمعیت علمائے اسلام(ف) سے وابستہ آئینی ماہرین نے اس پر رائے دی کہ ایک اسمبلی کی تحلیل سے الیکٹورل کالج تحلیل نہیں ہوا کرتا اور الیکشن پھر بھی ہوں گے تو ہمیں فوری طور پر اپنی حکمت عملی تبدیل کرنی پڑی، اس حوالے سے ضمنی الیکشن میں بھی حصہ لینے کا فیصلہ کیا اور سینیٹ الیکشن میں بھی حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے، اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو سینیٹ بھی ان نااہلوں سے بھر جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے ڈھائی سال کے دوران ہر ضمنی الیکشن میں حصہ لیا ہے، ہم نے ووٹر لسٹ پر اعتراض کیا نہ عوام پر اعتراض کیا ہے، عوام کی جو رائے ہے وہ ہر الیکشن میں صحیح طور پر سامنے آئی ہے لیکن عام انتخابات میں جو عوام کی رائے تبدیل کی گئی اس پر ہم احتجاج کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اصولی طور پر ہمیں 25جولائی 2018 کے الیکشن اور اس کے نتائج پر اعتراض ہے، اس کے نتائج بالکل تبدیل کردیے گئے ہیں، اقلیت کو اکثریت میں تبدیل کیا گیا ہے اور جس کو حق حکمرانی حاصل نہیں تھا، اسی کو حق حکمرانی کیوں دیا گیا ہے۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ نے کہا کہ جو بائیڈن پاکستان کی حکومت کو جمہوریت کے معیار پر ایک جمہوری حکومت تسلیم نہیں کررہے، ان کے رویوں سے اندازہ ہو رہا ہے اور انہیں کرنا بھی نہیں چاہیے، پاکستان کی حکومت وہ ہو جو جمہوری معیار پر پورا اترتی ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ بیت المقدس میں امریکا نے جو اپنا سفارتخانہ کھولنے کی بات کی ہے، وہ ٹرمپ کا غیرجمہوری فیصلہ ہے جس پر جو بائیڈن کو حقیقت پسندانہ انداز میں اس خطے کو اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق متنازع علاقہ تسلیم کرنا چاہیے اور وہاں سے اپنا سفارتخانہ واپس کردینا چاہیے۔

اوپن بیلٹ کے حوالے سے سوال پر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ حکومت کو اپنے لوگوں اور اپنے ووٹ پر اعتماد نہیں ہے، ان کو پتہ ہے کہ یہ ہماری لسٹ کے لوگ نہیں بلکہ کسی اور کی فہرست کے لوگ ہیں اور میرا اندازہ ہے کہ انہیں اپنا ووٹ بھی نہیں مل سکے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری جنگ اسٹیبلشمنٹ نہیں بلکہ حکومت کے ساتھ ہے، اسٹیبلشمنٹ سے ہمیں شکایت ہے اور یہ جو کچھ مصیبت قوم پر مسلط ہے اس میں اسٹیبلشمنٹ اپنے آپ کو ذمے دار تسلیم کرے۔

ان کا کہنا تھا کہ بطور سیاسی کارکن میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ وزیر اعظم کے منصب پر میں بیٹھنا چاہتا ہوں لیکن کیا میں یہ بھی سوچ سکتا ہوں کہ آرمی چیف کی جگہ میں بیٹھنا چاہتا ہوں؟، میں ان کے دفتر اور آرمی ہاؤس میں جانا چاہتا ہوں، جب یہ تصور ہی نہیں ہے تو مجھے کیا پڑی ہے کہ میں کہوں کہ میری جنگ آرمی چیف یا آئی ایس آئی کے ساتھ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ ہم سے جنگ نہ لڑیں، ہم نہیں لڑ رہے، وہ لڑ رہے ہیں، ان سے درخواست ہے کہ وہ یہ جنگ نہ لڑیں، یہ آپ کے فائدے میں نہیں ہے، آپ ریاستی ادارہ نہیں اور براہ راست ریاست کے تحفظ کی حفاظت کی ذمے داری آپ پر آتی ہے تو اس حوالے سے ہماری سوچ کا احترام کیا جائے۔

جمعیت علمائے اسلام(ف) کے قائد نے کہا کہ ہم کسی ادارے سے جنگ نہیں لڑنا چاہتے لیکن اگر وہ غلط کام کرتا ہے تو کیا غلط کو غلط بھی نہ کہیں، شکایت اور گلا بھی نہ کریں، یہ کوئی انڈیا کی فوج ہے کہ ہم اس سے گلا نہ کریں اور دشمن سمجھیں، اپنوں سے ہی شکایت ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں پاکستان کے اداروں سے شکایت کرتا ہوں، میں الیکشن کمیشن ، نیب، اسٹیبلشمنٹ سے شاکی ہوں جو اس قسم کی حرکتیں کریں ، پارٹیوں کو توڑنے کا کردار ادا کریں، ان سے خفیہ ملاقاتیں کریں، لالچ دیں، جب یہ چیزیں ہم تک پہنچیں گی تو گلا تو ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ نیب کا حربہ ایک وقت تک ان کے کام آتا رہا لیکن اب وہ ٹھس ہو چکا ہے، نیب کچھ بھی نہیں ہے اور اب نیب خطرے میں ہے، کل جو بھی حکومت آئے گی، نیب کا خاتمہ کر دے گی لہٰذا نیب کے افسران بھی حدود میں رہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ خفیہ ملاقاتیں ہماری نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت ہوتی ہیں، اس لیے ہم بھی ان کا پردہ رکھتے ہیں، ہم سے خفیہ رابطے رہے ہیں لیکن وہ ہمیں آمادہ کرنے میں ناکام رہے ہیں، ہم اپنے مؤقف پر قائم ہیں۔

جمعیت علمائے اسلام(ف) کے سربراہ نے کہا کہ 18ویں ترمیم میں صوبوں کو اختیارات دے دیے گئے ہیں، اب واپس لینا صوبوں کے احساس محرومی میں اور اضافہ کرے گا جو بغاوت کی تحریک میں منتقل نہ ہو جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس طرح کی چیزوں پر ہاتھ ڈالنا ملک کو تقسیم کرنے کا سبب بن سکتا ہے، پاکستان اس وقت انتہائی نازک دور سے گزر رہا ہے لہٰذا یہاں اس طرح کے مسائل نہ چھیڑے جائیں، یہاں پاکستان کو مضبوط کرنے کے بجائے ایک ادارے کو مضبوط کرنے کی سوچ پروان چڑھ رہی ہے، جب تک ہم اس ترجیح کو تبدیل نہیں کریں گے، جب تک ہم صرف پاکستان کو مضبوط اور قوم کو طاقتور بنانے کے بارے میں نہیں سوچیں گے، یہ پاکستان ترقی کی طرف نہیں جا سکے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے