سیالکوٹ(سچ خبریں) گزشتہ روز ملک کے 4 حلقوں 2 قومی اور دو صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر ضمنی انتخابات منعقد ہوئے تھے تاہم قومی اسمبلی کے حلقہ 75 (سیالکوٹ 4) میں ضمنی انتخاب میں نتائج میں تاخیر اور 20 پولنگ اسٹیشن کے نتائج عملے میں ردو بدل کے خدشے کے پیش نظر الیکشن کمیشن نے متعلقہ افسران کو غیرحتمی نتیجہ کے اعلان سے روک دیا ہے
انہیں 4 میں سے ایک حلقہ این اے 75 ڈسکہ کا تھا جہاں کی نشست مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی صاحبزدہ سید افتخار الحسن شاہ کے انتقال کے بعد خالی ہوئی تھی۔
اس حلقے میں 19 فروری کو ہونے والے ضمنی انتخاب میں اصل مقابلہ مسلم لیگ (ن) کی نوشین افتخار اور پی ٹی آئی کے علی اسجد ملہی کے درمیان تھا۔
تاہم اس حلقے میں ہونے والے ضمنی انتخاب میں کشیدگی دیکھنے میں آئی تھی اور فائرنگ کے نتیجے میں گزشتہ روز 2 افراد جاں بحق بھی ہوگئے تھے، مزید یہ کہ انتخابی نتائج پر بھی جیتے کے دعوے سامنے آئے تھے۔
الیکشن کمیشن پاکستان (ای سی پی) کے جاری کردہ ایک اعلامیہ کے مطابق این اے 75 سیالکوٹ کے نتائج غیرضروری تاخیر سے موصول ہوئے اور اس دوران متعدد مرتبہ پریزائڈنگ افسران سے رابطے کی کوشش بھی کی گئی مگر رابطہ نہ ہوسکا۔
اعلامیہ کے مطابق ان افسران کا پتا لگانے کے لیے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر اور ریٹرننگ افسر کی اطلاع پر چیف الیکشن کمشنر نے آئی جی پنجاب پولیس، کمشنر اور ڈپٹی کمشنر سے رابطے کی کوشش کی لیکن اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا گیا۔
الیکشن کمیشن کے بیان میں کہا گیا کہ چیف سیکریٹری سے رات 3 بجے ایک مرتبہ رابطہ ہوا، جس پر انہوں نے گمشدہ افسران اور پولنگ بیگز کو تلاش کرکے نتائج کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی مگر پھر وہ بھی معاملے پر دستیاب نہیں رہے، بعد ازاں کافی کوششوں کے بعد صبح 6 بجے پریزائڈنگ افسران بمعہ پولنگ بیگز واپس آگئے۔
اعلامیہ کے مطابق ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران اور ریٹرننگ افسر حلقہ این اے 75 نے آگاہ کیا ہے کہ 20 پولنگ اسٹیشنز کے نتائج میں رد و بدل کا شبہ ہے، لہٰذا مکمل انکوائری کے بغیر حلقہ کا غیرحتمی نتیجہ جاری کرنا ممکن نہیں ہے، مزید یہ کہ اس سلسلے میں ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر تفصیلی رپورٹ الیکشن کمیشن کو بھیج رہے ہیں۔
ساتھ ہی یہ بھی بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن نے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران اور ریٹرننگ افسر کو این اے 75 سیالکوٹ کے غیرحتمی نتیجہ کے اعلان سے روک دیا ہے اور مکمل انکوائری اور ذمہ داران کے تعین کی ہدایات کی گئی ہیں۔
الیکشن کمیشن کے مطابق معاملے کی تہہ تک پہنچنے کے لیے صوبائی الیکشن کمشنر اور جوائنٹ صوبائی الیکشن کمشنر کو ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر اور ریٹرننگ افسر کے دفتر پہنچنے کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ ریکارڈ مکمل محفوظ کرلیا جائے۔اپنے اعلامیہ میں الیکشن کمیشن نے کہا کہ مذکورہ معاملہ انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کمزوری لگتی ہے۔