اسلام آباد:(سچ خبریں) اقوام متحدہ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خوراک کے بڑھتے عدم تحفظ اور گلوبل وارمنگ میں اضافے کے پیش نظر حکومتوں، عالمی ترقیاتی شراکت داروں اور صنعتوں کو چاہیے کہ وہ بھوک کی کمی، لوگوں کو روزگار زندگی کی فراہمی اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے پائیدار فوڈ کولڈ چینز کے شعبے میں سرمایہ کاری کریں۔
یہ رپورٹ شرم الشیخ میں 27ویں موسمیاتی تبدیلی کانفرنس (کوپ27) کے موقع پر سسٹین ایبل فوڈ کولڈ چینز کے عنوان سے یو این انوائرمنٹل پروگرام (یو این ای پی) اور اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او ) کی جانب سے ہفتے کے روز جاری کی گئی۔
جاری کردہ رپورٹ سے پتا چلا ہے کہ 2050 تک اضافی دو ارب لوگوں کی خوراک کی ضروریات کو پورا اور گرین ہاؤس گیسز کے بڑھتے ہوئے اخراج سے بچنے کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے فوڈ کولڈ چینز کو بروئے کار لانا اہم ہے۔
دنیا میں بھوک سے متاثرہ افراد کی تعداد 2021 میں بڑھ کر 82 کروڑ 80 لاکھ ہو گئی جس میں سالانہ بنیادوں پر 4 کروڑ 60 لاکھ افراد کا اضافہ ہوا۔
2020 میں تقریباً 3 ارب 10 کروڑ لوگ صحت بخش غذا استعمال کرنے کے متحمل نہ ہو سکے اور یہ تعداد 2019 کے مقابلے میں 11 کروڑ 20 لاکھ زیادہ ہے جب کہ وبائی مرض کورونا کے معاشی اثرات نے مہنگائی میں اضافہ کیا، اسی دوران رواں سال یوکرین میں تنازع نے اناج کی بنیادی قیمتوں میں اضافہ کر دیا تھا جس سے غذائی تحفظ کو خطرات لاحق ہو گئے تھے۔
ایگزیکٹو ڈائریکٹر یو این انوائرمنٹل پروگرام انگر اینڈرسن نے کہا کہ عالمی برادری کو موسمیاتی تبدیلیوں اور خوراک کے بحران سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، اس سلسلے میں پائیدار اور مستحکم فوڈ کولڈ چینز کا شعبہ بہت بڑا کردار اور واضح فرق پیدا کر سکتا ہے، یہ شعبہ ہمیں خوراک کے ضیاع کو کم کرنے، خوراک کے تحفظ کو بہتر بنانے، گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو کم کرنے، روزگار کے مواقع پیدا کرنے، غربت کو کم کرنے اور مشکل صورتحال سے نمٹنے کے مواقع فراہم کرتا ہے۔
دوسری جانب، ایک اندازے کے مطابق انسانی استعمال کے لیے تیار کردہ مجموعی خوراک کا 14 فیصد صارفین تک پہنچنے سے پہلے ہی ضائع ہو جاتا ہے، خوراک کے معیار، غذائیت اور غذائی تحفظ کو برقرار رکھنے کے لیے مؤثر کولڈ چین سسٹم کا فقدان خوراک کے ہونے والے مجموعی نقصان کا ایک بڑا حصہ یعنی 12 بنتا ہے ۔