دریں اثنا اسلام آباد انتظامیہ نے دارالحکومت میں دفعہ 144 نافذ کر دیا ہے اور اس حکم کی خلاف ورزی کی صورت میں گرفتاریوں کا انتباہ دیا ہے۔
اسلام آباد پولیس نے اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ کے ذریعے پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ العمل ہے، خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف گرفتاریاں عمل میں لائی جائیں گی‘۔
ٹوئٹ میں کہا گیا کہ ’عدالتی احکامات کی روشنی میں صرف متعلقہ افراد کو عدالتی احاطے میں داخلے کی اجازت ہوگی‘۔
ٹوئٹ میں مزید کہا گیا کہ ’پی ٹی آئی کے جانب سے رابطہ کاری عامر کیانی کے سپرد کی گئی ہے، علاوہ ازیں سیف سٹی ہیڈ کوارٹر میں ایک مرکزی کنٹرول روم بھی قائم کیا گیا ہے‘۔
سماعت کے آغاز سے قبل پی ٹی آئی رہنما شیریں مزاری نے دعویٰ کیا کہ عمران خان کے فوٹوگرافر نعمان جی سمیت 3 دیگر شہریوں کو پولیس نے اسلام آباد ہائی کورٹ جاتے وقت حراست میں لے لیا۔
انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ ’یہ 4 غیر مسلح شہری، جن میں سے ایک ہمارا آفیشل فوٹوگرافر ہے، عمران خان کی گاڑی کے ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ جارہے تھے، انہیں بغیر کسی جرم کے گرفتار کرلیا گیا ہے اور غالباً رمنا تھانے لے جایا گیا ہے، پھر ہم اسلام آباد پولیس پر تنقید کریں تو ہمیں ٹارگٹ کیا جاتا ہے‘۔
علاوہ ازیں پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے پی ٹی آئی کارکنان کو شہری لباس میں ملبوس افراد کے ہاتھوں حراست میں لیے جانے کی ویڈیوز بھی شیئر کی گئیں۔
پی ٹی آئی کی جانب سے کہا گیا کہ ’یہ شرمناک ہے کہ آج اسلام آباد میں پی ٹی آئی کارکنان کو کس طرح گرفتار کیا جا رہا ہے، وہ لوگ جنہوں نے وردی بھی نہیں پہنی ہوئی وہ کیوں ہمارے لوگوں کو قیدیوں والی وین میں ڈال رہے ہیں‘۔
دریں اثنا پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نے آج اسلام آباد میں تمام ریلیوں اور عوامی اجتماعات کی لائیو اور ریکارڈڈ کوریج پر پابندی عائد کر دی۔
پیمرا کی جانب سے ایک روز کے لیے پابندی کا نوٹفیکیشن جاری کر دیا گیا ہے جس کے مطابق احتجاجی ریلی یا عوامی اجتماع کی لائیو یا ریکارڈڈ کوریج نہیں کی جاسکتی، مذکورہ پابندی امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر عائد کی گئی ہے۔
پیمرا کے نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے 2018 کے احکامات کی روشنی میں کوریج پر پابندی پیمرا آرڈیننس کے سیکشن 27 کے تحت لگائی گئی ہے۔
دریں اثنا محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے دہشتگردی کے مقدمات میں عمران خان سمیت 17 رہنماؤں کو طلب کرلیا۔
محکمہ انسداد دہشت گردی کی جانب سے پی ٹی آئی کی قیادت کو دہشت گردی کے 2 مقدمات میں شامل تفتیش ہونے کے لیے حکم نامہ بھجوایا گیا ہے۔
پارٹی چیئرمین عمران خان کے علاوہ محکمہ انسداد دہشت گردی کی جانب سے مراد سعید، عامر کیانی، امجد نیازی، راجا خرم نواز، علی امین گنڈا پور، شبلی فراز، اسد عمر، ڈاکٹر شہزاد وسیم، فرخ حبیب، عمر ایوب، حماد اظہر، اسد قیصر، حسان خان نیازی اور عمران خان کے سی ایس او کرنل ریٹائرڈ عاصم کو تھانہ سی ٹی ڈی میں درج مقدمہ میں بلایا گیا ہے۔
جبکہ عمران خان، اسد عمر، علی نواز اعوان اور عامر مغل جمشید خان سمیت 10 افراد کو تھانہ گولڑہ میں درج مقدمہ میں بلایا گیا ہے۔
محکمہ انسداد دہشتگردی کی جانب سے بھیجے گئے نوٹس میں کہا گیا ہے کہ تمام افراد شاملِ تفتیش ہو کر اپنا مؤقف پیش کریں بصورتِ دیگر قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
دریں اثنا اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان کے خلاف مقدمات کی تفصیلات کی فراہمی سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کیس کی سماعت کی، پی ٹی آئی چیئرمین کی جانب سے ان کے وکیل فیصل فرید چوہدری عدالت میں پیش ہوئے۔
سماعت کے آغاز پر فیصل چوہدری نے کہا کہ ’آج ہمارے لیے پارکنگ بھی بند کردی گئی ہیں‘، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ ہی کے مؤکل نے آج ہائی کورٹ ضمانت کے لیے آنا ہے، میں خود وہ کنٹینرز پاس کرکے عدالت پہنچ آیا ہوں‘۔
فیصل چوہدری نے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے گزشتہ روز انٹرویو کا حوالہ دیا، اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ ’باقی چیزوں کو ابھی چھوڑیں، آپ کی درخواست پر نوٹسسز جاری کیے تھے‘۔
عدالت نے اسٹیٹ کونسل زوہیب گوندل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل سے مقدمات کے بارے میں استفسار کرتے ہوئے کہا کہ ’آئی جی اسلام آباد اور ایف آئی اے ہمارے دائر اختیار میں ہے، اسی وجہ سے ہم نے نوٹس لیا، اسلام آباد کی حد تک ہم نے مقدمات بارے تفصیلات فراہمی کی ہدایت کی تھی‘۔
اسٹیٹ کونسل زوہیب گوندل نے جواب دیا کہ ’ایک دو دن تک مقدمات کی تفصیلات عدالت کو فراہم کریں گے‘۔
فیصل چوہدری نے کہا کہ ’وزیر داخلہ نے ٹی وی انٹرویو میں میرے مؤکل کو براہ راست دھمکی تھی، 143 مقدمات درج کیے گئے اور مزید بھی درج ہونے ہیں‘۔
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’میں خالی آرڈر نہیں دے سکتا، ان کو تفصیلات جمع کرنے دیں، آپ کی اپنے استدعا پر اگر میں جاؤں تو مسئلہ ہوگا، آپ نے کہا ہمیں غیر قانونی مقدمات میں گرفتار نہ کیا جائے، کیا میں آرڈر کردوں کہ غیر قانونی نہیں بلکہ قانونی طور پر گرفتار کریں؟‘۔
بعدازاں ڈپٹی اٹارنی جنرل کی ہدایات لینے کی استدعا منظور کرتے ہوئے عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل تک کے لیے ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ عمران خان کے خلاف مختلف دفعات کے تحت تھانہ رمنا، سی ٹی ڈی اور گولڑہ میں مقدمات درج ہیں۔
27 مارچ کو لاہور ہائی کورٹ نے عمران خان کی 5 مقدمات میں حفاظتی ضمانت میں 27 مارچ (آج) تک توسیع کردی تھی۔
قبل ازیں 21 مارچ کو لاہور ہائی کورٹ نے عمران خان کے خلاف اسلام آباد میں تھانہ سی ٹی ڈی اور تھانہ گولڑہ میں درج 2 مقدمات میں 27 مارچ (آج ) تک توسیع کردی تھی۔
خیال رہے کہ محکمہ انسداد دہشت گردی اور گولڑہ پولیس اسٹیشن میں درج 2 ایف آئی آرز میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ توشہ خانہ کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنوں نے فیڈرل جوڈیشل کمپلیکس اسلام آباد کے باہر پولیس پر حملہ کیا اور بے امنی پیدا کی۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی سربراہ و دیگر رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 اور تعزیرات پاکستان کی دفعہ 148، 149، 186، 353، 380، 395، 427، 435، 440 اور 506 شامل کی گئی تھیں۔
واضح رہے کہ 28 فروری کو عمران خان کے خلاف درج مختلف مقدمات کی اسلام آباد کی مقامی عدالتوں میں سماعت ہوئی تھی جہاں دوران سماعت وہ پیش ہوئے تھے۔
عمران خان اپنے پارٹی کارکنان اور رہنماؤں کے ہمراہ قافلے کی شکل میں اسلام آباد کی مختلف عدالتوں میں پیشی کے لیے لاہور سے وفاقی دارالحکومت پہنچے تھے۔
جوڈیشل کمپلیکس میں موجود عدالتوں میں ان کی پیشی کے موقع پر شدید بے نظمی دیکھنے میں آئی اور بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کارکنان زبردستی احاطہ عدالت میں داخل ہونے میں کامیاب رہے تھے، اس سلسلے میں اسلام آباد پولیس نے کارِ سرکار میں مداخلت پر 25 افراد کو حراست میں لے لیا تھا۔
بعدازاں عمران خان کی جوڈیشل کمپلیکس اور اسلام آباد ہائی کورٹ آمد پر ہنگامہ آرائی کے خلاف یکم مارچ کو اسلام آباد کے تھانہ رمنا میں 2 علیحدہ علیحدہ مقدمات درج کرلیے گئے تھے۔
دونوں مقدمات میں سابق وزیر اعظم عمران خان سمیت پی ٹی آئی کے 21 رہنماؤں اور 250 کارکنان کو بھی نامزد کیا گیا تھا، ان مقدمات میں دہشت گردی ،کار سرکار میں مداخلت اور سرکاری اہلکاروں سے مزاحمت کی دفعات شامل کی گئی تھیں۔