اسلام آباد: (سچ خبریں) جمعیت علماءاسلام (ف) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زراری کے 25اکتوبر سے پہلے ترامیم منظور ہونے کے بیان پر اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ آئینی ترامیم کے حوالے سے اب بھی وہی صورتحال ہے، جو 2 ہفتے پہلے تھی، آئینی ترامیم سے متعلق ایسی کوئی پیشرفت نہیں ہوئی جس کی بنیاد پر یہ کہا جائے کہ مولانا نے کوئی بات تسلیم یا مسترد کردی ہے، خون خرابے کی دھمکی اور دباو کے تحت کسی سے تعاون نہیں کریں گے،جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے رہنماءجے یو آئی (ف) کا کہنا تھا کہ ترمیم ہماری نہیں بلکہ حکومت کی ضرورت ہے۔
حکومتی ترمیم رات کے اندھیرے میں لائی اور اس کی ٹائمنگ مناسب نہیں تھی۔مسلم لیگ (ن)نے ترمیم سے متعلق ابتدائی دستاویزات شیئر کیںتھیں۔
15ستمبر کے بعد ن لیگ کی جانب سے کوئی مسودہ شیئر نہیں کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کو ساتھ نہ بٹھانے کا حکومتی رویہ مسائل کوجنم دے گا۔ آئینی ترمیم سے متعلق صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ پیپلز پارٹی کے علاوہ کسی نے ہم سے مسودہ شیئر نہیں کیا۔
پیپلز پارٹی کی جانب سے دئیے گئے مسودے پر کل بات ہوگی۔خیال رہے کہ گزشتہ روز پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا کہ آئینی ترامیم 25 اکتوبر سے پہلے ہوجائیں تو معاملہ پرامن طور پر حل ہوجائے گا۔ ترامیم بعد میں بھی ہوسکتی ہیں لیکن پھر آمنے سامنے کی صورتحال ہو سکتی ہے۔ان کایہ بھی کہنا تھا کہ آئینی عدالت کے معاملے کو ایسے نہیں چھوڑیں گے اس کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔
سپریم کورٹ پریس ایسوسی ایشن کے وفد میں شامل صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کے دوران چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹوکا مزید کہنا تھا کہ آئینی عدالت کے حوالے سے ہم پہلے ہی بہت تاخیر کا شکار ہوچکے ہیں۔ ہمارا تو 2006 کا مطالبہ ہے اور یہ ہمارے منشور کا بھی حصہ ہے۔ وفاقی آئینی عدالت کے قیام کا جواز سپریم کورٹ کی اپنی ماضی کی تاریخ ہے۔ آئینی ترامیم نہ ہونے کی صورت میں پیدا ہونے والے حالات پھر شاید کسی کے کنٹرول میں نہ رہیں۔
اٹھارویں ترمیم سے آئین بحال کیا اور آمریت کا راستہ روکا۔صحافی نے چیئرمین پیپلزپارٹی سے سوال کیا کہ کیا آپ عمران خان کے ملٹری ٹرائل کے حق میں ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ابھی تو دیکھنا ہے کہ شواہد کیا ہیں، ویسے بھی صدارتی معافی کا اختیار ہمارے پاس ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی سزائے موت کے خلاف ہے۔ آئینی عدالت کے سربراہ کی مدت تین سال ہوگی جبکہ فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں نہیں ہیں، وفاقی آئینی عدالت کے قیام کا جواز سپریم کورٹ کی اپنی ماضی کی تاریخ ہے تھی۔