سچ خبریں: پاکستانی قوم کی اکثریت کو ہمیشہ یہ شکوہ رہا ہے کہ حکومتیں اپنے وعدے پورے نہیں کرتیں لیکن مبارک ہو کہ موجودہ حکومت نے عوام سے کیا گیا ایک وعدہ صرف دو ڈھائی سال کے قلیل عرصے میں ہی پورا کر دکھایا ہے۔
ہماری حکومتوں نے عوام کو واقعی پرانے پاکستان میں بھیج دیا گیا ہے اور اشرافیہ کو چھوڑ کر اکثریتی عوام کو اس پرانے پاکستان میں ویلکم کہا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 2024 پاکستان کے لیے کیسا سال ہو گا؟
یہ زیادہ پرانی بات نہیں، لگ بھگ ایک سال قبل اپریل 2022 میں، جب بانی پی ٹی آئی عمران خان کی حکومت کے خلاف کامیاب تحریک عدم اعتماد کے بعد اس وقت کی پی ڈی ایم حکومت کے اتحادی اور پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی کے فلور پر مسکراتے ہوئے ببانگ دہل "ویلکم ٹو پرانا پاکستان” کہا تھا۔
پاکستان کے عوام، جو اس سے قبل روٹی کپڑا اور مکان، اسلامی نظام حکومت، نظام مصطفیٰ کا نفاذ، پاکستان کو ایشین ٹائیگر اور پھر ریاست مدینہ بنانے جیسے وعدے سن چکے تھے، اور کوئی وعدہ بھی وفا نہ ہو سکا، اس بار بھی اسے ایک کبھی نہ پورا ہونے والا وعدہ ہی سمجھ رہے تھے۔
لیکن قوم کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ موجودہ حکمران اتنے "سچے اور دھن کے پکے” نکلیں گے کہ ترقی معکوس کا سفر برق رفتاری سے طے کراتے ہوئے دہائیوں کا سفر صرف دو سال میں ہی مکمل کر دیں گے۔
یوں 21 ویں صدی میں جیتے پاکستانی 20 ویں صدی کے وسط کے پاکستان میں پہنچا دیے گئے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد کی ابتدائی تاریخ کچھ روشن ہے کہ چند سالوں میں ملک نے ترقی اور عروج کا سفر طے کیا۔ بجلی، گیس اور صاف پانی جیسی بنیادی سہولتیں بتدریج فراہم کی گئیں، جس سے زندگی سہل ہو گئی۔
تاہم، بعد میں لوڈشیڈنگ کے نام پر بجلی کی فراہمی میں رکاوٹیں ڈالنے کا سلسلہ شروع ہوا، جسے بعد میں لوڈ مینیجمنٹ کا نام دے دیا گیا۔ چند سال پہلے گیس کی لوڈشیڈنگ بھی شروع ہوگئی۔
یہ سب آہستہ آہستہ کم ہونے لگا، مگر کچھ نہ کچھ فراہم کیا جاتا رہا اور لوگ بھی صبر و شکر سے گزارا کرنے لگے۔
لیکن پھر پی ڈی ایم کی حکومت، اس کے بعد نگراں حکومت اور اب پی ڈی ایم کے سیکوئل حکومت (کچھ تبدیلیوں کے ساتھ) نے ایسی پالیسیاں اپنائیں کہ لوگ اس کم دستیاب چیز سے بھی پناہ مانگنے لگے۔
حالات اس حد تک بگڑ گئے کہ عوام کو ان بنیادی سہولتوں سے بھی محرومی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جو پہلے کم از کم کسی نہ کسی شکل میں دستیاب تھیں۔
پی ٹی آئی دور حکومت میں بجلی کا یونٹ 16 سے 17 روپے تھا اور ایک متوسط گھر کا گیس کا بل 500 سے 800 روپے کے درمیان آتا تھا۔ تاہم، پچھلے ڈھائی سال میں تین حکومتوں کے دوران توانائی کا بحران بڑھ گیا ہے اور اب قومی اور مذہبی تہواروں پر بھی بجلی اور گیس کی بندش معمول بن چکی ہے۔
بجلی کا فی یونٹ بل نصف سنچری کراس کرنے کے بعد تیزی سے سنچری کی جانب گامزن ہے، اور 500 روپے گیس کا بل بھرنے والے غریب اب 5 سے 6 ہزار روپے کے بل ادا کر رہے ہیں۔
مہنگائی کے بڑھتے ہوئے عفریت کے ساتھ آمدنی میں کوئی اضافہ نہ ہونے سے عوام کی اکثریت بجلی اور گیس کے بل ادا کرنے سے قاصر ہے۔ جو لوگ سولر کی استطاعت رکھتے ہیں، وہ سولر سسٹم لگوا رہے ہیں، لیکن اکثریت جو روز کما کر کھانے والی ہے، وہ اب دوبارہ لکڑیوں پر کھانا پکانے اور لالٹینوں اور چراغوں سے اپنے گھروں کو روشن کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔
حکومت کے ان اقدامات اور عوام کے پرانے پاکستان میں جانے سے جہاں ہمارے بزرگوں کی دلی خواہش پوری ہوئی ہے، جو اپنے دور کو آج سے بہترین دور کہتے تھے، وہیں کئی دیگر فوائد بھی قوم کو حاصل ہوئے ہیں۔ جب گھنٹوں بجلی یا گیس جاتی ہے، تو قوم صبر کا گھونٹ پیتی ہے اور پھر چند لمحوں کے لیے بجلی کی جھلک دیکھ کر شکر ادا کرتی ہے۔
یوں صبر اور شکر کا جو اجر و ثواب ہوتا ہے، وہ حکومت اور بجلی اداروں کی پالیسیوں کی بدولت ہی ملتا ہے۔
اسی طرح، سخت گرمی میں رات گئے اچانک بجلی چلی جائے اور پسینے میں شرابور ہو کر آپ کی آنکھ کھل جائے، تو بجائے بجلی محکمے کو کوسنے کے، اسے اپنے لیے نعمت مترقبہ سمجھیں اور وضو کر کے تہجد کے لیے کھڑے ہو جائیں۔
یوں زحمت کو رحمت میں بدل لیں گے اور دنیاوی گرمی کے بدلے جنت کی ٹھنڈی ہوائیں حاصل کر لیں گے۔ اگر بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پانی دستیاب نہ ہو، تو تیمم کی سہولت بھی موجود ہے۔
اسی طرح، جب آگ برساتی گرمی میں دن کے اوقات میں بجلی جاتی ہے، تو خوفِ آخرت جاگ سکتا ہے اور انسان نیکی کی جانب مائل ہو سکتا ہے۔
اگر گیس دستیاب نہ ہو اور لکڑی خریدنے کی سکت بھی نہ ہو، تو نفلی روزہ رکھ کر اس کی برکتیں سمیٹ سکتے ہیں۔ یوں کچھ دنیاوی تکالیف کے ساتھ حکومت اخروی فوائد کے حصول میں بھی معاون و مددگار بن رہی ہے۔
آخر میں، مشرف دور میں ہونے والے سانحہ نائن الیون کا ذکر کریں تو کہا جاتا ہے کہ امریکا نے اس وقت افغانستان کے خلاف جنگ میں ساتھ نہ دینے پر پاکستان کو پتھروں کے دور میں پہنچانے کی دھمکی دی تھی۔
اگر امریکہ سرکار اپنا کہا پورا نہ کر سکی، تو ہمارے حکمراں اس کام کو پورا کر رہے ہیں، موجودہ حکومت نے عوام کو پرانے پاکستان میں لے جانے کے بعد اب اپنے دیرینہ دوست کے حکم کی بجا آوری میں پاکستان کو پتھروں کے زمانے میں لے جانے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں،اگر یقین نہ آئے تو پتھروں کے دور کی تاریخ پڑھ لیں اور موجودہ پاکستان کے حالات دیکھ لیں۔
پتھروں کے دور کی تاریخ پڑھیں تو وہاں صرف بجلی اور گیس کی عدم دستیابی کا مسئلہ نہیں تھا، بلکہ وہاں کوئی قانون، اصول یا حکومت نہیں ہوتی تھی۔
پتھروں کے دور میں طاقت ہی قانون، اصول اور حکومت تھی۔ طاقتور ہر کمزور کو دبانے کا حق رکھتا تھا اور کوئی اس پر چوں تک نہیں کر پاتا تھا۔
آج کے پاکستان کو دیکھیں تو صورتحال پتھروں کے دور سے ملتی جلتی ہی نظر آتی ہے۔
یہاں بھی قانون اور آئین کو طاقتوروں نے گھر کی لونڈی بنا دیا ہے اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق، ہر جگہ طاقت کا قانون نافذ ہے۔
اگر کوئی امیر ہے تو سب نعمتیں اس کے لیے دستیاب ہیں، اور اگر غریب و بے بس ہے تو اس کے لیے سانس لینا بھی دشوار ہے۔
دنیا تو عارضی ٹھکانہ ہے جبکہ آخرت ہماری ابدی زندگی ہے۔ عوام کو ایسی ہمدرد حکومت کہاں ملے گی جو عوام کی عارضی زندگی کے بجائے ہمیشگی کی زندگی سدھارنے کے لیے دن رات کوشاں ہے؟ تو پھر عوام کیوں اس بے چاری حکومت اور اس کے اداروں سے نالاں ہیں؟
مزید پڑھیں: میاں صاحب، پارٹی میں کام کرنے والوں کو سائیڈ لائن کیا جا رہا ہے، حمزہ شہباز
شاید پاکستانی عوام یہ سوچ کر حیران ہیں کہ حکمران طبقہ، جو غریب قوم کی فکر آخرت میں گھلا جا رہا ہے، کیوں اپنی آخرت کی فکر نہیں کرتا اور عارضی دنیا کی ہر سہولت اپنے لیے سمیٹنے میں مصروف ہے۔
اس سوال کا جواب تو حکمران یا مقتدر طبقہ خود ہی دے سکتا ہے۔ آگے ہماری زبان بند ہے اور قلم بے بس ہے۔