26 ویں ترمیم کیس: 8 رکنی آئینی بینچ نے لائیو اسٹریمنگ کی درخواست منظور کرلی

?️

اسلام آباد: (سچ خبریں) سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 8 رکنی آئینی بینچ نے 26 ویں آئینی ترمیم کے خلاف دائر درخواستوں پر لائیو اسٹریمنگ کی درخواست منظور کرلی، اب اس کیس کی سماعت براہ راست دکھائی جائے گی ۔

اکتوبر 2025 میں پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظور کی گئی 26 ویں آئینی ترمیم عدالتی اختیارات اور مدتِ ملازمت میں تبدیلی سے متعلق ہے اور اس نے عدلیہ کی خودمختاری کے حوالے سے شدید بحث کو جنم دیا ہے۔

اس ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے اختیارات ختم کر دیے گئے، چیف جسٹس آف پاکستان کی مدتِ ملازمت 3 سال مقرر کی گئی، اور وزیراعظم کو اختیار دیا گیا کہ وہ سپریم کورٹ کے 3 سینئر ترین ججز میں سے کسی ایک کو چیف جسٹس نامزد کر سکیں، اسی ترمیم نے آئینی بینچ کے قیام کی راہ بھی ہموار کی تھی، جو اب اسی قانون کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کر رہا ہے۔

یہ ترمیم مختلف ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشنز، پاکستان تحریک انصاف اور دیگر فریقین نے چیلنج کر رکھی ہے۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مزہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 8 رکنی بینچ نے منگل کو ان درخواستوں کی سماعت دوبارہ شروع کی جو آخری بار 27 جنوری کو ہوئی تھی۔

منگل کی سماعت کے دوران 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کے لیے فل کورٹ کی تشکیل، آئینی بینچ پر اعتراضات، اور کارروائی کی براہِ راست نشریات پر مشمتل تین امور زیرِ بحث آئے۔

ابتدائی مرحلے میں جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ عدالت پہلے فل کورٹ کے مطالبے اور بینچ پر اعتراضات کے حوالے سے دلائل سنے گی، جب کہ لائیو اسٹریمنگ سے متعلق معاملے کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔

اس موقع پر وکیل خواجہ احمد حسن نے مؤقف اختیار کیا کہ فل کورٹ کی تشکیل سے متعلق دلائل عوام کے سامنے آنے چاہئیں، اس لیے کارروائی کو براہِ راست نشر کیا جائے، تاہم جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ بینچ کی تشکیل عدالت کا اندرونی معاملہ ہے، عوامی نہیں۔

تحریکِ تحفظِ آئینِ پاکستان کے نائب چیئرمین مصطفیٰ کھوکھر کے وکیل شاہد جمیل نے عدالت کو بتایا کہ رجسٹرار آفس نے ان کی درخواست پر اعتراضات اٹھائے تھے، جس پر انہوں نے اپیل دائر کی ہے، عدالت نے بعد ازاں کھوکھر کی درخواست کو نمبر الاٹ کر دیا۔

خیبرپختونخوا حکومت کے وکیل نے بھی فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ کیا مگر واضح کیا کہ انہیں موجودہ بینچ کے ارکان پر کوئی اعتراض نہیں۔

بیرسٹر صلاح الدین احمد نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عوام کو معلومات تک رسائی کا حق حاصل ہے، لیکن 26ویں ترمیم کا مسودہ نہ تو عوام کے سامنے لایا گیا اور نہ ہی اس پر کوئی عوامی بحث ہوئی، انہوں نے کہا کہ کم از کم عدالتی کارروائی ہی عوام کے لیے براہِ راست نشر کی جائے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ترمیم ’رات کی تاریکی میں‘ منظور کی گئی تھی، اس لیے اب حقائق عوام کے سامنے آنے چاہئیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہمارا المیہ ہے کہ ہم ہر چیز کا غلط استعمال کرتے ہیں، ہم نے لائیو اسٹریمنگ سے لوگوں کو تعلیم دینا چاہی لیکن ہم لائیو اسٹریمنگ سے ایکسپوز ہوگئے۔

اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان روسٹرم پر آگئے، جسٹس عائشہ ملک نے پوچھا کہ لائیو اسٹریمنگ سے متعلق آپ کا کیا موقف ہے؟ ہونا چاہئے یا نہیں ؟ حکومت کا لائیو اسٹریمنگ سے متعلق کیا موقف ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر عامر رحمٰن نے کہا کہ لائیو اسٹریمنگ انتظامی سائڈ پر ہوتا ہے۔

اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ یعنی بینچ جو فیصلہ کرلے اس پر راضی ہیں، بعدازاں جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں8 رکنی بینچ نے لائیو اسٹریمنگ کی درخواست منظور کرلی اور سماعت بدھ 8 اکتوبر کی صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔

درخواست گزاروں نے عدالتِ عظمیٰ سے استدعا کی ہے کہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ترمیم کے حق میں ووٹ دینے والے ارکان پارلیمان کی مطلوبہ دو تہائی اکثریت نے آزادانہ طور پر ووٹ نہیں دیا، تو پوری ترمیم کو کالعدم قرار دیا جائے، ان کا موقف ہے کہ ترمیم کے بعض حصے عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرتے ہیں، خاص طور پر وہ دفعات جو چیف جسٹس کی تقرری، عدالتی کارکردگی کے جائزے اور آئینی بینچز کے قیام سے متعلق ہیں۔

درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2024 اور سپریم کورٹ (نمبر آف ججز) ترمیمی ایکٹ 2024 کو بھی غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی اور موقف اختیار کیا کہ یہ قوانین ایک غیر آئینی ترمیم کے نتیجے میں بنائے گئے۔

علاوہ ازیں، انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس اہم نوعیت کے مقدمے کی سماعت اسی آئینی ترمیم کے تحت قائم 8 رکنی بینچ کے ذریعے نہ کی جائے بلکہ فل کورٹ قائم کی جائے۔

بعد ازاں عدالت نے لائیو اسٹریمنگ سے متعلق درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا، تاہم بعد میں کارروائی کی براہِ راست نشریات کی اجازت دے دی اور سماعت بدھ 8 اکتوبر کی صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔

درخواست گزاروں نے عدالتِ عظمیٰ سے استدعا کی ہے کہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ترمیم کے حق میں ووٹ دینے والے ارکان پارلیمان کی مطلوبہ دو تہائی اکثریت نے آزادانہ طور پر ووٹ نہیں دیا، تو پوری ترمیم کو کالعدم قرار دیا جائے، ان کا موقف ہے کہ ترمیم کے بعض حصے عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرتے ہیں، خاص طور پر وہ دفعات جو چیف جسٹس کی تقرری، عدالتی کارکردگی کے جائزے اور آئینی بینچز کے قیام سے متعلق ہیں۔

درخواست گزاروں نے سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2024 اور سپریم کورٹ (نمبر آف ججز) ترمیمی ایکٹ 2024 کو بھی غیر آئینی قرار دینے کی استدعا کی اور موقف اختیار کیا کہ یہ قوانین ایک غیر آئینی ترمیم کے نتیجے میں بنائے گئے۔

علاوہ ازیں، انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس اہم نوعیت کے مقدمے کی سماعت اسی آئینی ترمیم کے تحت قائم 8 رکنی بینچ کے ذریعے نہ کی جائے بلکہ فل کورٹ قائم کی جائے۔

مشہور خبریں۔

شوکت ترین کے کاغذات نامزدگی کو چیلنج کر دیا گیا

?️ 9 دسمبر 2021اسلام آباد (سچ خبریں) مشیر خزانہ شوکت ترین کے کاغذات نامزدگی کو

حکومت نے زوال پذیر صنعتی شعبے کی بحالی کیلئے نئی صنعتی پالیسی کو حتمی شکل دیدی

?️ 5 جولائی 2025اسلام آباد: (سچ خبریں) حکومت نے ملک کے زوال پذیر صنعتی شعبے

بیلجیئم کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کا اسرائیلی یونیورسٹیوں سے رابطہ منقطع

?️ 9 مئی 2024سچ خبریں: بیلجیم کے اعلیٰ تعلیمی اداروں نے صیہونی حکومت کے ہاتھوں

ترکی میں ہرتزوگ دہشت گرد کا استقبال کرنا فلسطین کے ساتھ غداری :اسلامی جہاد

?️ 10 مارچ 2022سچ خبریں:  فلسطین کی اسلامی جہاد تحریک نے آج شام ایک بیان

یوکرین میں شکست کے بعد مغرب کے خاتمے کی توقع

?️ 3 جنوری 2023سچ خبریں:   ریاستہائے متحدہ کی ڈیموکریٹک پارٹی کے رکن جیفری ینگ نے

سعودی جیل کی کہانی یمنی قیدی کی زبانی

?️ 22 مارچ 2022سچ خبریں:سعودی حکومت کی جیلوں سے رہائی پانے والے ایک یمنی شہری

کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے  جنگ بندی ختم کرنے کا اعلان کر دیا

?️ 10 دسمبر 2021لاہور (سچ خبریں)کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا کہنا تھا

اگر اپوزیشن بدتمیزی کرے گی تو اسی زبان میں جواب ملے گا۔ عظمی بخاری

?️ 21 جون 2025لاہور (سچ خبریں) پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمی بخاری نے کہا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے