سچ خبریں: نیا سال پاکستان کے سیاسی کیلنڈر میں ایک اہم لمحات کے ساتھ شروع ہو رہا ہے اس لیے کہ اس ملک میں آئندہ ہفتوں میں انتخابات ہونے والے ہیں جس کے نتیجے میں ایک ایسی حکومت کی تشکیل ہوگی جس کے لیے پانچ سالہ دور میں ملک کو چلانا مشکل کام ہوگا۔
پاکستان میں نئے سال کا خیرمقدم ایسے حالات میں کیا جا رہا ہے جبکہ اس ملک کی مقبول ترین سیاسی شخصیت اور پاکستان تحریک انصاف کی سیاسی جماعت کے سربراہ ،2018 سے 2022 کے موسم بہار تک وزارت عظمیٰ کی نشست سنبھالنے والے، اس وقت کئی مالی، سیاسی اور سیکیورٹی الزامات کی وجہ سے جیل میں موجود عمران خان کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کی آئندہ انتخابات میں حصہ لینے اور مقابلہ کرنے کے اہل نہیں سمجھا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کے سیاسی مستقبل میں آنے والے ہفتوں کا اہم کردار
گزشتہ روز الیکشن کمیشن نے عمران خان کے علاوہ تحریک انصاف پارٹی کے اہم ارکان کی ایک قابل ذکر تعداد کے کاغذات نامزدگی مسترد کر دیے جو پارلیمانی انتخابات میں حصہ لینے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے،اس کاروائی کو آئندہ انتخابات کے موقع پر پاکستان کی اس ممتاز سیاسی جماعت کے لیے ایک بڑا دھچکا سمجھا جا رہا ہے۔
چند روز قبل عمران خان کی قیادت میں پارٹی کے کچھ ارکان نے 8 فروری کو ہونے والے انتخابات میں پاکستان کی سماجی اور سیاسی فضا کو تبدیل کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت کا سہارا لیا اور مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے جیل سے عمران خان کے تحریری پیغام کو ان کی آواز کے ساتھ آڈیو پیغام میں تبدیل کر دیا جو پاکستان کے سوشل میڈیا میں وسیع پیمانے پر شائع ہوا اور لاکھوں مرتبہ اسے دیکھا گیا۔
اس کاروائی کے بعد عمران خان کی جیل سے الیکشن میں حصہ لینے کے لیے رجسٹریشن کی خبر شائع ہوئی جس نے پاکستان کی سیاسی اور سماجی فضا میں کافی ہلچل مچادی۔
تاہم گزشتہ روز الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے انہیں اور ان کی پارٹی کے چند اہم ارکان کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہ ملنے کے حوالے سے بیان ایک بار پھر پاکستان کی اس مقبول سیاسی شخصیت کے بے شمار مداحوں کے عدم اطمینان کا باعث بنا۔
موجودہ صورتحال اور تحریک انصاف کے لیے سانس لینے کی جگہ کم ہونے کے بعد اب ایسا لگتا ہے کہ محمد نواز شریف کی سربراہی میں مسلم لیگ نواز پارٹی کا آئندہ انتخابات میں کوئی سخت حریف نہیں ہوگا، اور وہ خود کو دوبارہ اقتدار میں لانے کے لیے ووٹوں کی اکثریت سے یہ آسان مقابلہ جیت سکتے ہیں ،یہ منظر نامہ اس وقت ممکن ہو گا جب الیکشن سے پہلے 6 ہفتوں کے اندر اس ملک میں کچھ نیا یا غیر متوقع نہ ہو اور الیکشن کمیشن کے ووٹ اور عمران خان اور ان کی پارٹی کی حیثیت میں کوئی تبدیلی نہ ہو۔
عمران خان جو 2018 کے انتخابات میں عوام کے ایک اہم حصے بالخصوص نوجوانوں اور پڑھے لکھے طبقے کے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہے تھے، نیا پاکستان کا نعرہ لگا کر اور پاکستان کی آزادی اور معیشت کو مضبوط کر رہے تھے، حالانکہ ماضی کی طرح پاکستان کی حکومتیں اور مشکل حالات کی وجہ سے اس ملک کی معیشت اپنے معاشی وعدے پورے نہ کر سکی لیکن پاکستان کی آزادی کو مضبوط کرنے کے تناظر میں انہوں نے ہمت سے کام لیا اور ایسی پالیسی اپنائی جو امریکیوں کے ذوق کے لیے زیادہ خوش گوار نہ تھی،شاید خارجہ پالیسی کے میدان میں یہ ان کی بہادری ہی تھی جو ایک طرح سے ان کی سیاسی زندگی کا خمار بن گئی اور ان کے بقول ان کی اقتدار سے برطرفی امریکیوں کی قیادت کے ساتھ ایک طرح کی بغاوت کا نتیجہ تھی۔
عمران خان کا خیال تھا کہ روس اور چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے ان کی کوششیں امریکہ کی پسند نہیں تھیں اور اس کے نتیجے میں وائٹ ہاؤس میں خفیہ کارروائیاں کی گئیں، جس کی وجہ سے پاکستان میں عدم اعتماد کے ووٹ کے لیے تحریک شروع ہوئی اور انہی اقتدار سے ہٹایا گیا۔
عمران خان کے بے تکلف بیانات اور اعترافات کے مطابق ایک اور مسئلہ جو ان کی وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کے عمل میں اثر انداز تھا وہ پاکستان کی طاقتور فوج کی بات نہ سننا اور ان کا ساتھ نہ دینا تھا،فوج جو 1947 میں پاکستان کی آزادی کے بعد سے اب تک اس ملک کا سب سے طاقتور ادارہ ہے، حکومتوں سے ہٹ کر بھی اہم اور حساس فیصلوں میں دخلل اندازی کرتا ہے۔
مزید پڑھیں: مسلسل سیاسی عدم استحکام پاکستان میں اصلاحات کے نفاذ کیلئے سنگین خطرہ قرار
کسی بھی صورت میں، اس بات سے قطع نظر کہ پاکستان کی کون سی سیاسی جماعت آئندہ انتخابات میں زیادہ سے زیادہ ووٹ لے کر حکومت بنائے گی، نئی حکومت اس ملک کے مشکل معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے، قومی کرنسی کی قدر میں شدید گراوٹ، ایندھن اور توانائی کے شعبے میں شدید رکاوٹیں، سکیورٹی کے مسائل، پاکستان اور افغانستان کے درمیان مسائل اور تناؤ، ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پرانے سیاسی اور علاقائی تنازعات، غیر مستحکم معاشی حالات سے اندرونی عدم اطمینان، بے روزگاری، غربت، بدقسمتی سے علاقائی اور بین الاقوامی صورتحال کے ساتھ ساتھ دسیوں دیگر مسائلکے ساتھ آگے بڑھنا ایک مشکل کام ہو گا اور شاید 1947 میں اس ملک کی آزادی کے بعد سے اب تک پاکستان کے تمام وزرائے اعظم کا جو حشر ہوا ہے وہی اگلے وزیر اعظم کا بھی ہو گا کیونکہ اب تک پاکستان کا کوئی بھی وزیر اعظم سیاسی اور اقتصادی وجوہات سے لے کر سکیورٹی اور دہشت گردی تک کی مختلف وجوہات کی بنا پر اپنی پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر سکا۔