سچ خبریں: معروف انٹرنیٹ ٹیکنالوجی کمپنیز گوگل اور ایپل کی جانب سے موبائل نوٹی فکیشنز کے ذریعے دنیا بھر کے صارفین کی جاسوسی کیے جانے اور پھر صارفین کے ڈیٹا کو بعض حکومتوں کو دیے جانے کا انکشاف سامنے آیا ہے۔
تقریباً تمام ممالک کے موبائل صارفین تازہ ترین حالات سے باخبر رہنے کے لیے موبائل میں موجود تمام ایپلی کیشنز اور ویب سائٹس کے نوٹی فکیشنز آن کرتے ہیں۔
زیادہ تر صارفین کو اس بات کا علم نہیں کہ مذکورہ نوٹی فکیشنز اگرچہ براہ راست ان کے پاس آتے ہیں لیکن نوٹی فکیشنز کی تمام معلومات موبائل کے آپریٹنگ سسٹمز کے سافٹ ویئرز کے پاس بھی جاتی ہے۔
یعنی نوٹی فکیشنز کی معلومات آئی فون کے آپریٹنگ سسٹم ’آئی او ایس‘ کی مالک کمپنی ایپل اور اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم کی مالک کمپنی گوگل کے پاس بھی جاتی ہے۔
اور اب یہ انکشاف سامنے آیا ہے کہ گوگل اور ایپل صارفین کے نوٹی فکیشنز کی معلومات مختلف حکومتوں کو فراہم کرتے ہیں۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق امریکی سینیٹر رون وائڈن کی جانب سے وزارت انصاف کو لکھے گئے خط میں انکشاف کیا گیا کہ گوگل اور ایپل، نوٹی فکیشنز کی صورت میں صارفین کی حاصل ہونے والی معلومات کو مختلف ایجنسیوں اور حکومتوں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں۔
انہوں نے محکمہ انصاف سے مذکورہ معاملے پر قوانین کے تحت کارروائی کا مطالبہ بھی کیا اور کہا کہ سنگین مسئلے کو دیکھا جانا چاہیے۔
خط میں ایپل کی جانب سے مذکورہ معاملے پر سینیٹر کو ملنے والا جواب بھی شامل کیا گیا، جس میں کمپنی نے تسلیم کیا کہ وہ نوٹی فکیشنز سے حاصل ہونے والی معلومات حکومتوں کو فراہم کرتی ہے۔
کمپنی کا مزید کہنا تھا کہ وہ قانون کے تحت جلد ہی اس ضمن میں تمام معلومات فراہم کرے گی کہ وہ کس طرح کی نوٹی فکیشنز سے حاصل ہونے والی معلومات حکومتوں یا ایجنسیوں کو فراہم کرتی رہی ہے۔
گوگل نے بھی امریکی سینیٹر کی جانب سے اٹھائے جانے والے معاملے پر تمام معلومات فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔
نوٹی فکیشنز کے ذریعے لوگوں کی جاسوسی کیے جانے کے انکشاف کے ساتھ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ گوگل اور ایپل نہ صرف ایپلی کیشنز بلکہ موبائل نیٹ ورک پر آنے والے پیغامات کے نوٹی فکیشنز کی معلومات بھی حاصل کرتے ہیں اور وہ درخواست پر حکومتوں اور ایجنسیوں کو معلومات فراہم کرتے رہے ہیں۔
امریکی سینیٹر کے خط کے مطابق گوگل اور ایپل کی مدد سے نہ صرف امریکا بلکہ دوسرے ممالک کی حکومتیں اور ایجنسیاں بھی صارفین کی جاسوسی کرتی آئی ہیں، لیکن فوری طور پر یہ واضح نہیں ہوسکا کہ کون کون سے ممالک مذکورہ ٹولز کے ذریعے کس طرح کے صارفین کی جاسوسی کرتے رہے ہیں۔