?️
سچ خبریں: غزہ پٹی برسوں سے نہ صرف محاصرے اور جنگ، بلکہ مختلف ‘خطوط’ کے ذریعے چلائی جا رہی ہے۔ یہ خطوط ہر ایک نے فلسطینیوں کی زندگی کو مزید محدود اور ان کے مستقبل کو مزید تاریک کر دیا ہے۔
اس دوران، ‘پیلے خط’ کا تصور سب سے نیا اور در عین خطرناک ترین خط ہے، جو اکتوبر 2025 کے جنگ بندی معاہدے کے بعد غزہ کے جغرافیے پر مسلط کیا گیا۔ یہ خط، جو بظاہر اسرائیلی فوج کی واپسی کی حد کے طور پر پیش کیا گیا، عملی طور پر قبضے کو مستحکم کرنے، فوجی کنٹرول کو گہرا کرنے اور آبادیاتی انجینئرنگ کا ایک آلہ بن چکا ہے۔ پیلے خط کی اصطلاح اب محض ایک فوجی اصطلاح نہیں، بلکہ ایک ٹھوس حقیقت ہے جس نے لاکھوں فلسطینیوں کی روزمرہ زندگی کو گھر، بے گھری اور موت کے درمیان معلق کر دیا ہے۔
پیلے خط کا آغاز کہاں سے ہوا؟
‘پیلے خط’ کا تصور باقاعدہ طور پر اکتوبر 2025 میں صہیونی ریاست اور حماس تحریک کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے اعلان کے بعد سیاسی اور میڈیا کی زبان میں شامل ہوا۔ اسرائیلی ریاست نے اس خط کو جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں اپنی افواج کی تعیناتی کے لیے عارضی حد قرار دیا، لیکن شروع کے دنوں ہی سے میدانی علامات نے ظاہر کر دیا کہ یہ خط عارضی نہیں رہنے والا۔ زرد رنگ کے کنکریٹ بلاکس سے اس کی تیز رفتار مستحکمی، فوجی دستوں کی موجودگی کا تسلسل اور سیکیورٹی آپریشنز کا جاری رہنا، سب اس بات کی غمازی کرتے تھے کہ تل ابیب ایک عبوری طریقہ کار کو مستقل حقیقت میں بدلنے کی کوشش کر رہا ہے۔ درحقیقت، پیلے خط کو اسرائیلی ریاست کی اس دیرینہ حکمت عملی کا تسلسل سمجھا جا سکتا ہے، جس کے تحت کسی بھی سیاسی معاہدے سے پہلے میدانی حقائق مسلط کیے جاتے ہیں۔
جغرافیائی محل وقوع اور پیلے خط کا دائرہ کار
جغرافیائی طور پر، پیلے خط کو غزہ پٹی کے مشرقی کنارے کے ساتھ کھینچا گیا ہے، جس کی گہرائی دو سے سات کلومیٹر تک ہے۔ یہ خط شمال میں بیت حانون اور بیت لاحیہ کے علاقوں کو شامل کرتا ہے، غزہ شہر کے مشرقی محلوں جیسے الشجاعیہ، التفاح اور الزیتون سے گزرتا ہے اور جنوب میں خان یونس اور رفح کے مشرق تک پہنچتا ہے۔ مختلف اندازوں کے مطابق، یہ علاقہ غزہ کے کل رقبے کے 52 سے 58 فیصد پر محیط ہے۔ یعنی اس چھوٹی اور گنجان آبادی والی پٹی کا نصف سے زیادہ حصہ۔ زرعی اراضی، اہم انفراسٹرکچر اور رہائشی علاقوں کا ایک قابل ذکر حصہ اس دائرے میں آتا ہے اور عملاً یہ ممنوعہ اور جان لیوا علاقے بن گئے ہیں۔
پیلی لاین: آپریشنل لائن سے نئی سرحد تک
اگرچہ اسرائیلی ریاست نے ابتدا میں پیلے خط کو ایک عارضی آپریشنل لائن کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی، لیکن اس ریاست کے فوجی اہلکاروں کے صریح بیانات نے حقیقت سے پردہ اٹھا دیا۔ اسرائیلی فوج کے سربراہ نے کھلم کھلا پیلے خط کو ‘نئی سرحد’ قرار دیا۔ یہ تعبیر جنگ بندی کے تصور سے نکل کر مستقل قبضے کے منطق میں داخل ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔ یہ وہ سرحد ہے جو نہ تو مذاکرات اور معاہدے کا نتیجہ ہے، بلکہ فوجی دباؤ کا پیدا کردہ ہے، اور آخرکار مستقل کنٹرول کا آلہ بن جاتی ہے۔ اس طرز گفتگو میں تبدیلی واضح طور پر ظاہر کرتی ہے کہ پیلے خط کو اسرائیلی ریاست کی طویل المدت حکمت عملی کا حصہ بنایا جا رہا ہے، جس کا مقصد غزہ کے سلامتی کے جغرافیے کو اپنے مفاد میں دوبارہ بیان کرنا ہے۔
انسانی نتائج: موت کے سائے میں زندگی
پیلے خط کے قریب رہنے والے باشندوں کے لیے، اس خط کا مطلب مستقل خطرے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ جو خاندان مشرقی خان یونس، الشجاعیہ یا دیگر علاقوں میں رہتے ہیں، انہیں ہر روز ڈرونز کی آوازیں، براہ راست فائرنگ اور توپ خانے کے گولہ باری کا سامنا ہے۔ جنگ بندی شروع ہونے کے بعد ہلاکتوں کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس خط نے نہ صرف سلامتی نہیں لائی، بلکہ تشدد کا نیا مرکز بن گیا ہے۔ اس علاقے کے قریب جانا، چاہے ویران گھر یا زرعی زمین دیکھنے کے لیے ہی کیوں نہ ہو، انسانی جانوں کی قیمت پر تمام ہو سکتا ہے، اور اس صورت حال نے عام زندگی کو عملاً ناممکن بنا دیا ہے۔
پیلے خط کا ایک براہ راست نتیجہ غزہ میں داخلی بے گھری کے عمل میں اضافہ ہے۔ مشرقی علاقوں میں مسلسل بمباری، گھروں کی نظامی طور پر تباہی اور مستقل عدم تحفظ کی فضا نے مقامی باشندوں کو مغربی اور زیادہ گنجان آباد علاقوں کی طرف ہجرت پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ جبری نقل مکانی عوام کے آزادانہ انتخاب کا نتیجہ نہیں، بلکہ ہدف بنائے گئے فوجی دباؤ کا شاخسانہ ہے۔ بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ اسرائیلی ریاست پیلے خط کو اسٹریٹجک علاقوں سے فلسطینیوں کو خالی کرنے اور اپنے طویل مدتی کنٹرول کو آسان بنانے کے آلے کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ یہ عمل بتدریج نسلی صفائی کی کلاسیکل پالیسیوں کی یاد دلاتا ہے۔
سلامتی کے خلا اور مقامی ملیشیاؤں کا کردار
پیلے خط کے پیچھے، ایک قابل ذکت سلامتی خلا پیدا ہو گیا ہے، جس نے مقامی مسلح گروپوں کے ابھرنے کا راستہ ہموار کیا ہے۔ یہ گروپ، جو بنیادی طور پر 2025 میں وجود میں آئے، ان علاقوں میں سرگرم ہیں جہاں عام فلسطینیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔ متعدد رپورٹس میں ان گروپوں کی اسرائیلی ریاست کی فوج اور سیکیورٹی اداروں سے براہ راست یا بالواسطہ وابستگی کا تذکرہ ملتا ہے۔ ان ملیشیاؤں کی موجودگی نے نا صرف عدم تحفظ میں اضافہ کیا ہے، بلکہ یہ صہیونی حکومت کے لیے ایک معاون آلہ بھی بن گئی ہے تاکہ بغیر باضابطہ وسیع موجودگی کے غزہ کی گہرائی میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھا جا سکے۔
پیلی لاین کو سیاسی دباؤ کے اوزار کے طور پر
اسرائیلی ریاست نے صاف طور پر یہ اعلان کیا ہے کہ پیلے خط سے پیچھے ہٹنا، مزاحمت کی مکمل غیر مسلح کاری اور غزہ کی ساخت سے حماس کے خاتمے پر مشروط ہے۔ یہ شرط پیلے خط کو محض ایک فوجی مسئلے سے سیاسی دباؤ کے اوزار میں تبدیل کر دیتی ہے۔ اس طرح کے فریم ورک میں، یہ خط یرغمال بنانے کا کردار ادا کرتا ہے۔ ایک ایسی یرغمالی جس سے غزہ کا سیاسی مستقبل، تعمیر نو اور یہاں تک کہ انسانی امداد کی آمد جڑی ہوئی ہے۔ یہ پالیسی عملاً مذاکرات کو تل ابیب اور واشنگٹن کی خواہشات مسلط کرنے کا آلہ بنا دیتی ہے۔
نتیجہ
غزہ میں پیلے خط، جسے بہت سے لوگ ‘ٹرمپ کا پیلے خط’ کہتے ہیں، محض ایک فوجی لائن نہیں ہے۔ بلکہ یہ فلسطین کے مستقبل کو ہڑپ کرنے اور قبضے کے ایک نئے دور کی علامت ہے۔ اس خط نے غزہ کے نصف سے زیادہ حصے کو جان لیوا علاقے میں بدل دیا ہے، جنگ بندی کو ایک خالی تصور بنا دیا ہے اور لاکھوں انسانوں کی زندگی کو غیر یقینی کی حالت میں لا کھڑا کیا ہے۔ جب تک یہ خط ایک مسلط کردہ سرحد کے طور پر قبول کیا جاتا رہے گا، غزہ تشدد، بے گھری اور ناانصافی کے چکر میں پھنسی رہے گی اور پیلے خط امن کی علامت بننے کی بجائے قبضے کے تسلسل کا زندہ دستاویز بن جائے گا۔
پیلی لاین کا مستقبل خطے میں سیاسی تبدیلیوں اور طاقت کے توازن پر انحصار کرتا ہے۔ اگر یہ خط ایک مسلط کردہ حقیقت کے طور پر قبول کر لیا جائے تو یہ غزہ میں مستقل قبضے کے لیے ایک نئے نمونے کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ اس کے برعکس، فلسطینی مزاحمت اور عالمی عوامی رائے کا دباؤ اس منصوبے کو چیلنج کر سکتا ہے۔ جو بات واضح ہے، وہ یہ کہ موجودہ حالت کا تسلسل انسانی مصائب، سیاسی گتھی اور مستقل عدم استحکام کو جاری رکھنے کے مترادف ہوگا۔
Short Link
Copied


مشہور خبریں۔
موبائل فون میں یو ایس بی لگانے کے حوالے سے کچھ اہم معلومات
?️ 5 ستمبر 2021سیئول (سچ خبریں) یو ایس بی موبائل فون چارجر میں لگانے کی
ستمبر
ایران کے نیوکلیئر پروگرام کا معاملہ پُرامن طریقے سے حل کیا جائے۔ پاکستانی مندوب
?️ 19 ستمبر 2025اسلام آباد (سچ خبریں) اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب عاصم افتخار نے
ستمبر
وزیراعظم کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد جمع
?️ 8 مارچ 2022اسلام آباد(سچ خبریں)وزیراعظم کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد جمع ،
مارچ
سارہ خان کی کم سن بیٹی کو نماز پڑھنا سکھانے کی ویڈیو وائرل
?️ 18 فروری 2024کراچی: (سچ خبریں) اداکارہ سارہ خان کی جانب سے اپنی کم سن
فروری
اسلام آباد میں ڈینگی کیسز میں کمی
?️ 27 نومبر 2021اسلام آباد(سچ خبریں) صوبہ پنجاب میں گزشتہ 24 گھنٹے کے دوران ڈینگی
نومبر
پاکستانی صدر کا عراق کے ساتھ دفاعی تعلقات اور زیارتوں کی سہولت پر زور
?️ 24 دسمبر 2025سچ خبریں: صدر پاکستان آصف علی زرداری نے عراق کے صدر اور
دسمبر
بے قابو آگ؛ گرمیوں میں یونان کا ڈراؤنا خواب
?️ 8 اگست 2021سچ خبریں:یونان کے جنگلات میں آتشزدگی جو کل تک پانچویں روز بھی
اگست
پنجاب کا آئندہ مالی سال 2021-22 کا بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا گیا ہے
?️ 15 جون 2021لاہور(سچ خبریں) تفصیلات کے مطابق پنجاب کا آئندہ مالی سال 2021-22 کا
جون