سچ خبریں:شمالی کوریا نے امریکہ کو ہتھیاروں کے کنٹرول کے بین الاقوامی نظام کی تباہی کا ذمہ دار ٹھہرتے ہوئے اپنے جوہری ہتھیاروں کو جزیرہ نما کوریا میں امن اور استحکام کا ضامن قرار دیا۔
روئٹرز خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق شمالی کوریا نے امریکہ کو ہتھیاروں کے کنٹرول کے بین الاقوامی نظام کے خاتمے کا ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ پیانگ یانگ کے جوہری ہتھیار جزیرہ نما کوریا میں امن اور استحکام کو یقینی بنانے کے لیے ایک منصفانہ ردعمل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق شمالی کوریا کی وزارت خارجہ نے اس ملک کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے سی این اے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ، جنوبی کوریا اور جاپان خطرے کی لکیر عبور کر رہے ہیں جسے برداشت نہیں کیا جا سکتا، یاد رہے کہ امریکہ نے حال ہی میں شمالی کوریا پر غیر قانونی آمدنی جسے پیانگ یانگ اپنے ہتھیاروں کے پروگراموں کو تیار کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے، پیدا کرنے کی وجہ سے نئی پابندیاں عائد کی ہیں ،جب کہ امریکہ کے پاس 1350 جوہری وار ہیڈز ہیں اور وہ دنیا کا واحد ملک ہے جس نے انسانیت کے خلاف ایٹم بم استعمال کیا ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ کے نائب وزیر خزانہ برائے دہشت گردی اور مالیاتی انٹیلی جنس برائن نیلسن نے ایک بیان کہا کہ شمالی کوریا کے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے غیر قانونی ہتھیار اور بیلسٹک میزائل پروگرام بین الاقوامی سلامتی اور علاقائی استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔
یاد رہے کہ تازہ ترین امریکی پابندیاں شمالی کوریا کے Hwasong-15 بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کے تجربے کے صرف دو ہفتے بعد لگائی گئی ہیں،واشنگٹن نے حال ہی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شمالی کوریا کے تازہ ترین بیلسٹک میزائل تجربات کی مذمت کرنے کی کوشش کی لیکن روس اور چین نے اس قرارداد کو ویٹو کر دیا ۔
یاد رہے کہ پیانگ یانگ کی طرف سے بار بار کی وارننگ کے باوجود، جنوبی کوریا اور امریکہ جزیرہ نما کوریا میں فوجی مشقیں جاری رکھے ہوئے ہیںجسے شمالی کوریا خود پر حملے کی تیاری کے طور پر دیکھتا ہے۔ پیانگ یانگ نے گزشتہ ماہ خبردار کیا تھا کہ وہ دونوں ممالک کی آئندہ مشقوں کے جواب میں غیر معمولی اقدامات اٹھائے گا۔
درایں اثنا حال ہی میں روس نے امریکہ کے ساتھ ہتھیاروں کے کنٹرول کے شعبے میں واحد باقی ماندہ معاہدہ نیو اسٹارٹ ٹریٹی کو معطل کر دیا جس کی وجہ اس نے کیف کو ہتھیاروں کی فراہمی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ ہم پر اسٹریٹجک ناکامی مسلط کرنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی ہماری جوہری تنصیبات تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔