سچ خبریں: اتوار کے روز اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ، تنازعات، نتائج اور حکمت عملی کے عنوان سے شائع ہونے والے ایک مضمون میں عبرانی زبان کے بیس میواسک نے تل ابیب کے نقطہ نظر سے اس جنگ کی صورت حال کا تجزیہ کیا ہے۔
حالیہ برسوں میں شمالی مقبوضہ فلسطین میں سلامتی کی صورتحال روز بروز خراب ہوتی جارہی ہے، اس مسئلے کا براہ راست تعلق لبنان میں حزب اللہ کی پوزیشن مضبوط ہونے سے ہے۔
اس صہیونی میڈیا کے مطابق تنازعات کی سطح میں اضافے سے یہ بات واضح ہوگئی کہ حزب اللہ نہ صرف اسرائیل کے لیے براہ راست فوجی خطرہ ہے بلکہ پیچیدہ سیاسی اور علاقائی مسائل کا ایک سلسلہ بھی لاتی ہے۔
اس رپورٹ کے مصنفین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ حالیہ پیش رفت، خاص طور پر سید حسن نصر اللہ کا قتل، ہمیں اس خطے میں لامتناہی جنگوں کے پیچیدہ خطرات اور قیمتوں کی یاد دلاتا ہے۔
اس میڈیا کے مطابق حزب اللہ کی مرکزی شخصیت کے طور پر سید حسن نصر اللہ کے قتل کا بنیادی مقصد اس تنظیم کے قائدانہ ڈھانچے کو غیر فعال کرنا اور اس کے نتیجے میں اسرائیلی اہداف کے خلاف حملوں میں ہم آہنگی اور تسلسل کو کم کرنا تھا۔
اس مضمون کے مصنفین کے مطابق، حزب اللہ کے ساتھ جنگ نہ صرف دونوں فریقوں کے درمیان فوجی جہت میں جاری ہے، بلکہ انٹیلی جنس اور نفسیاتی سطحوں پر بھی حزب اللہ فاسد اور متعصبانہ جنگوں میں جدید حکمت عملی اور بارش کے استعمال کے لیے مشہور ہے۔ راکٹ کی حکمت عملی اور اس کے باوجود اس جنگ میں اس کی صلاحیتیں ناقابل تردید ہیں۔
اس مضمون کے ایک اور حصے میں کہا گیا ہے کہ سلامتی کا مسئلہ اسرائیلی حکام کی بنیادی اور ترجیح ہے اور اس تناظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیلی معاشرہ اور خاص طور پر شمالی علاقہ جات کے باشندوں کو اس کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ عدم تحفظ اور غزہ یا لبنان سے راکٹوں کا نشانہ بننے کا خوف اسرائیلیوں کے لیے روز مرہ کا احساس بن چکا ہے اور یہ کہنا ضروری ہے کہ اسرائیل ایسے حالات میں زندگی گزارنے کے قابل نہیں ہے، اس لیے اسرائیل نے حزب اللہ کے ساتھ براہ راست تصادم کا فیصلہ کیا۔ تاکہ شمال کے باشندوں کو وہاں لایا جا سکے۔ ایسی صورتحال میں واپسی جہاں میزائل کا خطرہ نہ ہو۔