سچ خبریں: نئی دہلی کے شمالی شہر گڑگاؤں میں ہندو گروہ ہفتوں سے حکام پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو کھلی جگہوں پر نماز جمعہ پڑھنے سے منع کریں۔
مقامی میڈیا نے بتایا کہ جمعہ کو پولیس نے سینکڑوں اضافی اہلکار تعینات کیے اور کم از کم 30 افراد کو گرفتار کیا جبکہ مقامی ہندو تنظیموں نے نعرے بازی بھی کی۔
ناقدین نے وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی پر بھارت کی 20 کروڑ مسلمان آبادی سمیت اقلیتوں پر ظلم کے خلاف بھی نعرے لگائے ۔
نریندر مودی کی حکومت اس ہندو ایجنڈے کو مسترد کرتی ہے اور اس بات پر اصرار کرتی ہے کہ تمام مذاہب کے لوگوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔
ریاست ہریانہ، جس میں سے گڑگاؤں — جسے گروگرام بھی کہا جاتا ہے — دارالحکومت ہے، بی جے پی کی حکومت ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب شہر میں اس طرح کا واقعہ سامنے آیا ہو جہاں متعدد ملٹی نیشنل کمپنیاں قائم ہیں۔
2018 میں بھی اکثریتی ہندو برادری کے بہت سے لوگوں نے مسلمانوں کے کھلے میں نماز پڑھنے پر اسی طرح کے اعتراضات اٹھائے تھے۔
ضلعی حکام نے برادریوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کیا تھا اور مسلمانوں کے لیے نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے تقریباً 35 کھلی جگہوں کی نشاندہی کی۔
بھارتی نشریاتی ادارے این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق جمعہ کو حراست میں لیے گئے لوگوں میں سے بہت سے لوگوں نے پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر لکھا تھا ’گڑگاؤں انتظامیہ، نیند سے جاگو۔
سوشل میڈیا پر سامنے آنے والی ویڈیوز میں لوگوں کے ایک گروہ کو دکھایا گیا جو نمازوں کو روکنے کا مطالبہ کر رہے ہیں اور جئے شری رام‘ کے نعرے لگارہے ہیں جو ہندو قوم پرستوں کا نعرہ ہے۔
شمال مشرقی ریاست تریپورہ کے چند حصوں میں بھی جمعہ کو اقلیتی مسلمانوں کے خلاف حملوں کے بعد کشیدگی دیکھی گئی جسے رواں ماہ کے آغاز میں پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے خلاف تشدد کے بدلے کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔
ریاستی حکام نے پولیس اور نیم فوجی دستوں کو تعینات کیا اور ان علاقوں میں پانچ سے زیادہ لوگوں کے جمع ہونے پر پابندی لگا دی جہاں حملوں کی اطلاع ملی ہے۔
پولیس نے کہا کہ منگل سے ریاست کے شمالی حصے میں مسلمانوں کی کم از کم ایک مسجد، کئی دکانوں اور گھروں میں توڑ پھوڑ کی گئی۔
سینئر پولیس افسر بھانوپدا چکروتی نے کہا کہ ’چند مشتعل افراد تریپورہ میں امن اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔