سچ خبریں: لبنان کی پارلیمنٹ میں مزاحمت کے وفادار دھڑے کے نمائندے علی المقداد نے صیہونی دشمن کے ساتھ جنگ میں حالیہ پیش رفت کی وضاحت کی۔
المیادین کے ساتھ گفتگو میں المقداد نے کہا کہ شیخ نعیم قاسم کا حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کے طور پر انتخاب صحیح وقت اور صحیح حالات میں ہوا ہے اور ہم مستقبل میں نئے واقعات کا مشاہدہ کریں گے۔
انہوں نے جنگ بندی معاہدے کے بارے میں شائع ہونے والی خبروں کے بارے میں تاکید کی کہ لبنان پر صیہونی حکومت کی وحشیانہ جارحیت کے بند ہونے سے پہلے کسی قسم کے معاہدے یا مذاکرات کے بارے میں بات کرنا ناممکن ہے۔ ہم حزب اللہ میں کسی فریق کے ساتھ جنگ بندی پر بات نہیں کرتے اور ہم نے یہ ذمہ داری پارلیمنٹ کے اسپیکر جناب نبیہ بری کو سونپی ہے۔
حزب اللہ کے اس نمائندے نے اس بات پر زور دیا کہ اگر ہمارے مجاہد جنگجوؤں کا میدان اور طاقت نہ ہوتی تو ہم جنگ بندی کے بارے میں اسرائیل اور امریکہ کی گفتگو نہ سن سکتے۔
لبنانی پارلیمنٹ میں حزب اللہ کے ایک اور نمائندے علی فیاض نے اپنی باری میں اعلان کیا کہ لبنانیوں کی قومی پوزیشن بشمول حکومت کی پوزیشن اس پر مبنی ہے کہ مزاحمت میدان میں کیا حاصل کرتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ مزاحمت اب بھی صیہونی دشمن کی جارحیت سے نمٹنے کے قابل ہے اور قابضین کو لبنانی علاقوں سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا ہے، صیہونی حکومت سرحدی علاقے کو ایک جلے ہوئے علاقے میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن وہ اس میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔
جہاں امریکی میڈیا گزشتہ چند دنوں سے صیہونی حکومت کی جانب سے لبنان کے ساتھ جنگ بندی کی خواہش کی بات کر رہا ہے وہیں امریکی ویب سائٹ Axios نے اعلان کیا ہے کہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جنگ کے خاتمے کا معاہدہ چند ہفتوں میں طے پا سکتا ہے۔
Axios کے مطابق امریکہ اور اسرائیل جس معاہدے کی بات کر رہے ہیں اس میں جنگ بندی کا اعلان اور پھر سلامتی کونسل کی قرارداد 1701 پر عمل درآمد کی بنیاد پر 60 دن کی عبوری مدت شامل ہے اور اس دعوے کی بنیاد پر حزب اللہ کو اپنے بھاری ہتھیاروں کو واپس لینا ہو گا۔ عبوری دور کے دوران دریائے لیطانی کے شمال میں اور مقبوضہ فلسطین کی سرحدوں سے دور منتقل ہونا چاہیے۔
اس کے مطابق عبوری دور میں لبنانی فوج کو مقبوضہ فلسطین کے ساتھ سرحد پر 8000 کے قریب فوجی تعینات کرنا ہوں گے اور اسرائیلی فوج اس عرصے کے دوران سرحدوں سے آہستہ آہستہ اپنی افواج کو ہٹا لے گی۔