سچ خبریں: امریکی ہالی ووڈ اداکارہ نے غزہ میں مستقل جنگ بندی کے مقصد سے بھوک ہڑتال شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
فاکس نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکی ہالی ووڈ اداکارہ سنتھیا نکسن نے بھوک ہڑتال شروع کرنے کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد امریکی صدر جو بائیڈن کی جانب سے اقوام متحدہ کے صدر پر غزہ میں مستقل جنگ بندی کے قیام کے لیے کے دباؤ ڈالنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: خطے کے استحکام کس چیز پر منحصر ہے؟
امریکی اداکارہ سنتھیا نکسن جو بہت مشہور ہیں اور اس ملک کے کچھ مشہور ٹی وی شوز میں اداکاری کے لیے جانی جاتی ہیں، نے غزہ میں مستقل جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔
غزہ میں جنگ کے جاری رہنے کے خلاف مظاہرین کی موجودگی کے ساتھ وائٹ ہاؤس کے سامنے ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے نکسن نے کہا کہ ایک یہودی شخص اور یہودی بچوں کی ماں کے طور پر جن کے دادا دادی ہولوکاسٹ سے بچ گئے ہیں، میرے بیٹے نے مجھ سے کہا کہ میں جس آواز کو استعمال کرنا چاہتا ہوں اور اس پر زیادہ سے زیادہ زور سے دینا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ‘پھر کبھی نہیں’ کے نعرے کا مطلب ہر ایک کے لیے ‘پھر کبھی نہیں’، نہ صرف ہولوکاسٹ کے اعادہ کو روکنے کے لیے!
انہوں نے اسرائیلی بمباری کے دوران غزہ میں ہزاروں فلسطینیوں کی ہلاکت کی مذمت کی اور غزہ کی وزارت صحت کے ہلاکتوں کے اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سات ہفتوں کے دوران اسرائیل نے زمین کی ایک چھوٹے سے حصہ میں اتنے شہریوں کو ہلاک کیا ہے کہ غزہ میں متاثرین کی تعداد افغانستان میں امریکی جنگ کے 20 سال کے برابر ہے،میں تھک چکی ہوں سنتے سنتے کہ شہری ہلاکتیں جنگ کی ایک عام بات ہے۔
انہوں نے بائیڈن سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں ان کی اہلیہ، بیٹی اور بیٹے کی بے وقت موت سے انہیں فلسطینی ہلاکتوں کے حوالے سے زیادہ حساس ہونا چاہیے تھا۔
اس ہالی ووڈ اداکارہ نے بائیڈن سے کہا کہ میں صدر سے پوچھنا چاہتی ہوں، جنہوں نے خود اپنی بیوی اور بچوں کو کھونے کی ایسی تلخ یادوں کا تجربہ کیا ہے، وہ غزہ کے بچوں کو دیکھیں اور تصور کریں کہ وہ ان کے بچے ہیں۔
نکسن نے صحافیوں کو بتایا کہ بھوک ہڑتال کا مقصد بائیڈن کے لیے غزہ میں ہونے والی محرومیوں کو دیکھنے کے لیے صرف ایک آئینہ ہے۔
یاد رہے کہ نکسن نے 260 دیگر امریکی فنکاروں کے ساتھ شمولیت اختیار کی ہے جنہوں نے ایک کھلے خط پر دستخط کیے ہیں جس میں بائیڈن اور کانگریس کو غزہ میں مستقل جنگ بندی نافذ کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
دوسری جانب امریکی ویب سائٹ Politico نے اپنی ایک رپورٹ میں اسرائیل کی جنگ کے امریکہ کے بھاری مالی اخراجات کا جائزہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے اچانک حملوں کے بعد سے امریکی وزارت دفاع نے حکم دیا کہ ایک کیریئر اسٹرائیک گروپ ایئر کرافٹ کیریئرز، ایئر ڈیفنس، لڑاکا طیارے اور سینکڑوں دیگر فوجی مشرق وسطیٰ بھیجے جائیں تاکہ تنازعہ کو علاقائی جنگ میں تبدیل ہونے سے روکا جا سکے۔
پینٹاگون نے تصدیق کی ہے کہ امریکہ کے پاس اب مشرق وسطیٰ میں اپنی فوجیں بنانے کے لیے رقم نہیں ہے۔
امریکی فوج باقی وفاقی حکومت کی طرح ایک وفاقی فنڈنگ اقدام کے تحت کام کرتی ہے جو پچھلے سال کی سطح پر اخراجات کو منجمد کر دیتی ہے،امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان کرس شیروڈ نے کہا کہ چونکہ مشرق وسطیٰ میں امریکی افواج کی نقل و حرکت کی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی اس لیے پینٹاگون کو آپریشنل اکاؤنٹس سے رقم نکالنی پڑی۔
چونکہ امریکی محکمہ دفاع غزہ میں جاری جنگ کے لیے فنڈز دینے پر مجبور ہے، اس کا مطلب ہے کہ آنے والے سال کے لیے فوج نے پہلے سے ہی منصوبہ بندی کی ہوئی تربیت، مشقوں اور تعیناتیوں کے لیے کم رقم دستیاب ہے۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب کے شہر جدہ میں عرب سربراہی اجلاس میں کیا ہوا؟
نیز امریکی محکمہ دفاع، جسے پینٹاگون کے نام سے جانا جاتا ہے، نے اعلان کیا ہے کہ غزہ میں عارضی جنگ بندی کے ساتھ ہی، اس نے معلومات جمع کرنے کے لیے اس علاقے پر اپنے جاسوس طیاروں کی پروازیں روک دی ہیں۔
درحقیقت غزہ کی پٹی پر امریکی لڑاکا طیاروں کی معطلی کا اعلان اس جنگ میں امریکہ کی شرکت کا واضح اعتراف ہے۔
یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ امریکیوں نے پہلے غزہ جنگ میں کسی بھی فوجی موجودگی سے انکار کیا تھا۔