سچ خبریں: فرانسیسی حکومت نے حال ہی میں ایک بار پھر چارلی ہیبڈو میگزین کے حالیہ جارحانہ اقدام کو آزادی اظہار کی مثال کے طور پر پیش کیا۔
گزشتہ روز فرانس کی وزیر خارجہ کیتھرین کولونا نے چارلی ہیبڈو میگزین کے ایران اور عالم اسلام کی مذہبی اور سیاسی اتھارٹی کے خلاف توہین آمیز اقدامات کے بارے میں ایران کے رد عمل کے بارے میں کہا کہ یہ نہ بھولیں کہ فرانس میں ایران کے برعکس اظہار رائے کی آزادی ہے جو کہ ایک دوسرے کے خلاف ہے۔
چارلی ہیبڈو میگزین موہن کے لیے نیا نہیں ہے۔ 2015 میں اس اشاعت نے پیغمبر اسلام (ص) اور دین اسلام کی مقدس جگہ کی توہین کرکے پوری دنیا کے مسلمانوں میں غم و غصہ کو ہوا دی تھی اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس وقت فرانس سمیت مغربی ممالک کے حکام نے بھی آزادی اظہار کے تصورات کی حمایت کی وہ اس اشاعت کے توہین آمیز رویے کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
تاہم جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ اس آزادی اظہار کا دائرہ صرف اس حد تک بڑھایا گیا ہے کہ اسلام کی توہین کی اجازت دی گئی ہے اور اس اشاعت اور کسی دوسرے پریس یا آواز کے لیے چاہے یہ مسئلہ یہودیت سے متعلق ہو یا ہولوکاسٹ کا، اس میں واضح سرخ لکیریں ہیں۔
ہولوکاسٹ سے انکار کی تاریخ دوسری جنگ عظیم کے بعد کے سالوں کی ہے۔ فرانس سمیت کئی یورپی ممالک نے اس سے انکار کرنے والوں کو جیل اور جرمانے کی سزا سنائی ہے اور اگر یہ کام شائع ہوا تو ان لوگوں کی کتابیں یا مضامین ان کی پہنچ سے باہر ہو گئے ہیں۔
یورپی سیاسی اور عدالتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ہولوکاسٹ کی تردید کی وجہ سے یورپ میں رائے عامہ یہودیوں پر یہ الزام لگاتی ہے کہ وہ انہیں مظلوم ظاہر کرنے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اس نسل کے ارکان کے خلاف نفرت آمیز رویہ پایا جاتا ہے۔