سچ خبریں:بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر یوکرین جنگ کی بنا پر روس پر عائد پابندیوں کی وجہ سے تیل کی پیداوار میں کمی آتی ہے تو ریاض اپنی تیل کی پیداوار بڑھانے کے لیے تیار ہے۔
فنانشل ٹائمز نے بعض ذرائع کے حوالے سے کہا ہے کہ پابندیوں کی وجہ سے روسی تیل کی پیداوار میں کمی کی صورت میں سعودی عرب تیل مارکیٹ میں بھیجنے کے لیے تیار ہے، در ایں اثنا بلومبرگ نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا کہ یوکرین جنگ کی وجہ سے عائد پابندیوں کی وجہ سے روسی تیل کی پیداوار میں کمی کی صورت میں سعودی عرب کی جانب سے مارکیٹ میں تیل داخل کرنے کی تیاری کے بعد تیل کے ایک بیرل کی قیمت 113 ڈالر سے نیچے آگئی۔
واضح رہے کہ سعودی عرب کے بیان کردہ مؤقف ابتدائی بنیاد پر یہ ملک یوکرین کی جنگ میں غیرجانبدار تھا لیکن ریاض کی جانب سے تیل کی پیداوار بڑھانے کی بائیڈن کی درخواست کے خلاف مزاحمت عملی طور پر روس کے حق میں تھی کیونکہ اس طرح توانائی کے استعمال کو لے کر مغربی ممالک کے خلاف روس کی مدد کی تھی۔
لیکن یوکرائن کی جنگ کے بعد سے گزشتہ چند مہینوں میں، امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات میں ایسے آثار پیدا ہوئے ہیں جن سے معلوم ہوا کہ جو بائیڈن اور بن سلمان انتظامیہ اپنے اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹ کر ایک دوسرے کے قریب آنا شروع ہو چکی ہیں۔
اس کے علاوہ علاقائی مسائل پر دونوں فریقوں کے درمیان تعاون سے پتہ چلتا ہے کہ یہ آخر کار یوکرین جنگ میں دونوں فریقوں کے درمیان تعاون کا باعث بنے گا، قابل ذکر ہے کہ یہ پیش رفت سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم برنز کے ریاض کے حالیہ خفیہ دورے کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے۔
درحقیقت بائیڈن کی حکومت نے سعودی عرب کو یوکرین جنگ میں غیرجانبداری سے ہٹانے اور تیل کی پیداوار کی حد کو بڑھا کر روس پر جامع مغربی پابندیاں لگانے میں مدد کرنے میں اس کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے رعایتیں دیں اور سعودی عرب کو ضروری رعایت دی تو انہوں نے امریکی درخواست کو پورا کرنے کے لیے رضامندی کا اظہار کیا۔