سچ خبریں: بنیامین نیتن یاہو کے خلاف شدید اندرونی دباؤ کے پیش نظر، سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا بطور وزیر اعظم ان کی سب سے بڑی کامیابی ہو سکتی ہے، تاہم اس میں ریاض کے لیے بہت کم فوائد ہیں۔
امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان سعودی عرب اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے سلسلے میں جدہ میں سعودی حکام کے ساتھ سعودی عرب سے واپس آنے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے کوئی تفصیلات بتائے بغیر کہا کہ کوئی معاہدہ ہو سکتا ہے۔
تاہم ایسوسی ایٹڈ پریس نے ایک رپورٹ میں سلیوان کے سعودی عرب کے حالیہ سفر جس کا مقصد ریاض کو تل ابیب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے پر آمادہ کرنا ہےتھا، کے بارے میں لکھا کہ اب تک وائٹ ہاؤس کو کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تل ابیب اور ریاض کی ایک نئی کہانی
صیہونی حکومت کے داخلی سلامتی کے مشیر تساحی ہنگبی نے بھی اس حکومت کے وزیر خارجہ کے خلاف، جس نے سعودی عرب کے ساتھ ایک معاہدے کے قریب ہونے کی بات کی تھی، کہا کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔
درایں اثنا ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے بھی اس مسئلے پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے خبردار کیا کہ سعودی عرب اور صیہونی حکومت کے درمیان تعلقات معمول پر آن سے خطے میں امن و استحکام کو نقصان پہنچے گا۔
ایران کے انتباہ کا حوالہ دیتے ہوئے المیادین چینل کی ویب سائٹ نے لکھا کہ کچھ ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ مقبوضہ فلسطین میں سابق امریکی سفیر مارٹن انڈیک کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے ضرورت سے زیادہ شرائط ہیں جو تل ابیب کو پوری کرنا ہیں؛ جس میں امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان سکیورٹی معاہدے پر دستخط بھی شامل ہیں،اس معاہدے میں امریکہ اپنے نیٹو کے ارکان کو مشترکہ دفاع کے آرٹیکل 5 کی طرح ریاض کو حفاظتی ضمانتیں دے گا۔
اس کے علاوہ، واشنگٹن کو سعودی عرب کے آزاد سویلین نیوکلیئر پروگرام کی ترقی میں تعاون کرنے اور بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے منسوخ کیے گئے ہتھیاروں کے معاہدوں کو بحال کرنے کی شرط بھی ہے، جس میں F-35 لڑاکا طیاروں کی فروخت بھی شامل ہے۔
تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ بلاشبہ، سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر آنے سے سعودی عرب کو بہت کم فوائد حاصل ہوں گے جیسا کہ اس سے قبل سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے اعتراف کیا تھا لیکن دوسری طرف اس کے اسرائیل اور بائیڈن انتظامیہ دونوں کے لیے بہت سے فائدے ہوں گے۔
صیہونی حکومت کے لیے تعلقات کو معمول پر لانے کے فوائد
الف) سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا معاہدہ اس وقت زیادہ نمایاں ہوا جب اسرائیل نے محسوس کیا کہ وہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات کی بحالی کا سب سے زیادہ نقصان اسے ہوگا اس لیے اس نے ریاض کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کو ترجیح دی۔
ب) بنیامین نیتن یاہو نے صیہونی حکومت کے حالیہ انتخابات میں کامیابی کے بعد وعدہ کیا کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی میں دو مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کریں گے؛ ایک ایران کو ایٹمی ہتھیاروں کے حصول سے روکنا! اور دوسرا سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانا ہے لہذا اس وقت وہ اس معاہدے کو اندرونی بحران کو ختم کرنے کے لیے استعمال کریں گے اور اس پر فخر کریں گے۔
ج) یہودی بستیوں میں توسیع اور فلسطینیوں کے خلاف مسلسل خلاف ورزیوں جس پر کابینہ میں ان کے انتہائی دائیں بازو کے اتحادی اصرار کرتے ہیں، کی وجہ سے بین الاقوامی مخالفت اور نیتن یاہو پر امریکی دباؤ کے بعد اسرائیلی وزیراعظم کابینہ میں شامل اپنے اتحادیوں سے مغربی کنارے کے الحاق کے منصوبے پر عمل درآمد میں تاخیر کے لیے کہہ سکتے ہیں اور انہیں اس بات پر قائل کریں کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی قیمت اس سے زیادہ ہے۔
د) بائیڈن کے اعلان کے بعد کہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر آنے کا معاہدہ جلد طے پا جائے گا، نیتن یاہو نے اسرائیل کو سعودی عرب اور جزیرہ نما عرب سے جوڑنے کے منصوبے کا ذکر کیا۔
بائیڈن انتظامیہ کے لیے تعلقات کو معمول پر لانے کے فوائد
الف) بائیڈن انتظامیہ کو آئندہ صدارتی انتخابات میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے ایسی کامیابیوں کی ضرورت ہے جن سے وہ فائدہ اٹھا سکے، اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ 2024 میں امریکی صدارتی اور کانگریس کے انتخابات ہوں گے، جس کے دوران سینیٹ کی کل 100 نشستوں میں سے 34 سمیت ایوان نمائندگان کی تمام 435 نشستوں کے مالکان کا انتخاب کیا جائے گا۔
ب) بائیڈن حکومت کوشش کر رہی ہے کہ چین کی خطے پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت کو کم کیا جائے، مشرق وسطیٰ میں چین کے اثر و رسوخ کے بارے میں امریکہ کی تشویش اس سال مارچ میں سعودی عرب اور ایران کے درمیان ہونے والے معاہدے کی حمایت کے بعد شدت اختیار کر گئی ہے لہذا سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے سے اس سلسلہ میں بھی امریکہ کو فائدہ ہوگا۔
سعودی عرب کے لیے تعلقات کو معمول پر لانے کے فوائد
تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ اس معاہدے سے سعودی عرب کا فائدہ صیہونی حکومت کو حاصل ہونے والے فوائد کے مقابلے میں بہت کم ہے کیونکہ سعودی حکومت جس سلامتی کے خطرے سے پریشان تھی خطے میں کھلی پالیسی اختیار کرنے اور ایران کے ساتھ حالیہ معاہدے کے بعد اس میں کمی آئی ہے، اس لیے پچھلے مسلسل ادوار کے مقابلے میں اسلحے کے سودے اور سکیورٹی معاہدے سیکورٹی کے لحاظ سے مسترد ہیں نیز زیادہ موثر نہیں ہیں۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب صیہونی امریکی جال میں
آخر میں تجزیہ کار نے لکھا کہ سعودی عرب کے لیے صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کا واحد حقیقی فائدہ ایک آزاد پرامن ایٹمی پروگرام کا حامل ہونا ہے۔ جس پروگرام میں سعودی عرب کو ایٹمی ٹیکنالوجی بننے کی اجازت دی گئی،وہ بھی اگر امریکی اور اسرائیلی اس شرط کو مان لیں تب۔