سچ خبریں:اقتصادی تعاون اور ترقی تنظیم کے شائع کردہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سائنس دان اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے امریکہ کے مقابلے چین میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ کے جاری کردہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا کی سائنسی صلاحیتوں کو راغب کرنے کی دوڑ میں امریکہ چین سے ہار رہا ہے۔
واضح رہے کہ یہ تنظیم 38 رکن ممالک کی ایک بین الحکومتی تنظیم ہے جس نے نئے اعداد و شمار جاری کیے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین سے منسلک یونیورسٹیوں میں کام کرنے کے لیے محققین اور سائنسدانوں کو راغب کرنے کی چین کی حکمت عملی امریکہ کے مقابلے میں کہیں زیادہ کامیاب اور موثر رہی ہے۔
اس اعداد و شمار کی بنیاد پر 2021 میں ریاست ہائے متحدہ دوسرے ممالک کے مقابلے میں بہت سے ریسرچ سائنسدانوں کو کھو چکا ہے جنہوں نے عالمی شہرت یافتہ آؤٹ پٹ شائع کیا جبکہ اسی دوران چین نے 2408 سے زیادہ محققین اور مصنفین کو راغب کیا ہے۔
یہ اعداد و شمار 2017 سے ایک اہم تبدیلی کی طرف اشارہ کرتے ہیں اس لیے کہ اس وقت امریکہ 4292 سائنسدانوں کے ساتھ دانشور پذیر ممالک میں سرفہرست تھا، جب کہ چین نے صرف 116 سائنسدانوں کو راغب کیا۔
مزید اہم بات یہ ہے کہ یہ تنظیم تنظیمی وابستگی میں تبدیلیوں کی بنیاد پر شائع شدہ دستاویزات کے ساتھ سائنسی محققین کی آمد اور خروج کی پیروی کرتی ہے،اس طرح کہ اگر کوئی دانشور جو پہلے کسی دوسرے ملک سے وابستہ تھا، کسی نئے ملک میں اپنی تحقیق شائع کرتا ہے، تو نئے ملک کو ایک نئے تحقیقی سائنسدان کے وصول کنندہ کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔
اس اعداد و شمار میں سب سے اہم جو چیز دکھائی گئی ہے وہ چینی سائنسدانوں کی بڑی تعداد ہے جو چین واپس آئے ہیں جس کی وجہ امریکہ کی پالیسیوں اور سماجی اور معاشی حالات میں اچانک تبدیلی ہے۔
مرکز نے مذکورہ اعدادوشمار کی اہمیت کی طرف مزید اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ دنیا میں امریکہ کے لیے بہت خطرناک رجحان ہے کیونکہ اگر چینی سائنسدان امریکہ میں کام کرنے سے ڈرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ امریکہ انہیں اپنی طرف متوجہ کرے کرنے اور ان سے فائدہ حاصل کرنے میں چین سے پیچھے رہ جائے گا۔