سچ خبریں: سینئر علاقائی تجزیہ کار نے حماس کو نکالنے کے لیے قطر پر امریکی اور اسرائیلی دباؤ کا حوالہ دیتے ہوئے تجویز پیش کی کہ حماس کے رہنما اپنا دفتر فوری طور پر صنعا منتقل کریں جو فلسطین کے سب سے بڑے حامیوں میں سے ایک ہے۔
انٹر ریجنل اخبار رائے الیوم کے چیف ایڈیٹر اورخطے کے اسٹریٹجک امور کے سینئر تجزیہ کار عبدالباری عطوان نے ایک کالم میں لکھا ہے کہ قطر کی حکومت ان دنوں امریکہ اور صیہونی حکومت کے دباؤ میں ہے کہ وہ حماس کے ساتھ تعلقات اور دوحہ میں اس تحریک کے دفاتر کو بند کرے نیز توقع ہے کہ جنگ بندی کے مذاکرات کے نتیجے میں اور فلسطینی فریقوں اور صیہونی حکومت کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے نتیجے میں یہ دباؤ مزید بڑھے گا۔
یہ بھی پڑھیں: کیا قطر میں حماس کے دفاتر بند ہونے والے ہیں؟
اس رپورٹ کے مطابق چند روز قبل مقبوضہ علاقوں میں الجزیرہ چینل کے دفاتر کو بند کرنا بھی اسی دباؤ کا ایک حصہ ہے اور توقع ہے کہ یہ کارروائی پھیل کر غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کے مختلف علاقوں تک پہنچ جائے گی جس کے بعد اس چینل کے نامہ نگاروں کو غزہ کی پٹی میں سرگرم دیگر 145 صحافیوں کی طرح صیہونی حکومت کے ہاتھوں قتل کیا جائے گا۔
عطوان کا مزید کہنا ہے کہ فلسطین سے باہر حماس تحریک کے ایک رہنما نے اردن کی اسلامی شخصیات کے ایک محدود گروپ کے ساتھ ملاقات میں اس بات پر زور دیا کہ قطر حماس اور اسرائیل کے درمیان ثالثی پر نظر ثانی کر رہا ہے اور اس نظرثانی کے نتائج یہ ہو سکتے ہیں کہ دوحہ امریکہ اور اسرائیل کے زیر اثر حماس کو باضابطہ طور پر اپنے دفاتر کو اس ملک سے باہر منتقل کرنے کے لیے کہہ سکتا ہے۔
ساتھ ہی حماس کے اس عہدیدار نے اس بات پر زور دیا کہ ایسی کوئی سرکاری درخواست ابھی تک حماس کو موصول نہیں ہوئی ہے، تاہم حماس نے تمام آپشنز کا جائزہ لیا ہے اور ممکنہ متبادل دارالحکومتوں کے ساتھ رابطے کیے ہیں، تاہم اس سلسلے میں صنعاء سب سے زیادہ ممکنہ اور بہترین دارالحکومتوں میں سے ایک لگتا ہے۔
عطوان نے کہا کہ یمن کی تحریک انصار اللہ کے رہنماوں میں سے ایک محمد البخیتی نے X سائٹ پر لکھا ہے کہ صنعا ، عبدالملک الحوثی اور یمن کے عوام حماس تحریک کا اس ملک میں خیرمقدم کرتے ہیں کیونکہ دونوں قومیں ایک جیسی ہیں اور یمن کی سلامتی فلسطین کی سلامتی کا حصہ ہے۔
سینئر علاقائی تجزیہ کار نے صنعاء میں پانے والے عدم تحفظ کے بارے میں بعض شکوک و شبہات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ صنعاء اس وقت اور مستقبل میں بھی محفوظ ترین اور مستحکم عرب دارالحکومتوں میں سے ایک ہے اور اس کے باوجود بحیرہ احمر، خلیج عدن اور بحر ہند میں اسرائیلی بحری جہازوں اور انگریزوں کے خلاف یمنی بحریہ کی جنگ کے بعد اس شہر کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔
اس دعوے کی مزید وضاحت کرتے ہوئے وہ مزید کہتے ہیں کہ قابض اسرائیلیوں نے اپنے جدید ہتھیاروں اور فوجی بیڑے، جس میں ڈرون اور لیس آبدوزیں بھی شامل ہیں، کے باوجود کبھی بھی یمنی حملوں یا ایلات کی بندرگاہ پر میزائل حملوں کا جواب دینے کی جرأت نہیں کی،انہوں نے یمن کی طرف ایک گولی بھی نہیں چلائی اس لیے کہ وہ یمنیوں کے ساتھ طویل المدتی جنگ میں داخل ہونے سے خوفزدہ ہیں۔
مزید پڑھیں: امریکہ نے حماس کے رہنماؤں کے بارے میں قطر سے کیا مطالبہ کیا ہے؟
عطوان نے کہا کہ یمن کی حکومت اور عوام حماس کے اچھے میزبان اور عظیم حامی ہو سکتے ہیں،اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ اس ملک میں اپنی مرضی سے جانا چاہتے ہیں یا قطر پر امریکہ اور اسرائیل کے دباؤ کے تحت ایسا کرتے ہیں، وہ حماس کے رہنماؤں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اپنا دفتر بغیر کسی ہچکچاہٹ کے صنعاء منتقل کریں اور کسی اقدام کا انتظار نہ کریں، کیونکہ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے یمنی عوام اور رہنماؤں کا عزم کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔