?️
تل ابیب اور دمشق کے درمیان طاقت کا توازن،تعلقات کو معمول پر لانے سے لے کر تقسیم تک
حالیہ مہینوں میں شام اور اسرائیل (رژیم صہیونیستی) کے درمیان تعلقات شدید اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں۔ ایک طرف اسرائیلی قبضے اور مسلسل میزائل حملے جاری ہیں، تو دوسری طرف تعلقات کی بحالی کے لیے خاموش کوششیں بھی سامنے آ رہی ہیں۔
اسرائیلی منصوبہ ساز شروع ہی سے اس نظریے پر یقین رکھتے ہیں کہ اسرائیل کا وجود مشرق وسطیٰ کے حالات سے مطابقت نہیں رکھتا اور اس کی بقا خطے کی تقسیم پر منحصر ہے۔ اسی لیے اسرائیلی حکام ہمسایہ ممالک کی کمزوری اور انتشار کو اپنی سکیورٹی پالیسی کا بنیادی جزو سمجھتے ہیں۔ حتیٰ کہ اسرائیل نے ماضی میں مصر، لبنان اور فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ بھی عارضی معاہدے کیے تاکہ دوسرے محاذوں پر توجہ مرکوز رکھی جا سکے۔
اسرائیلی حکمتِ عملی کے تین بڑے ستون:عرب دنیا میں باہمی اختلافات اور تقسیم،علاقائی طاقتوں کا کمزور ہونا،مغربی ممالک کی مکمل حمایت،شام کے ساتھ مذاکرات اور موجودہ صورتحال،گزشتہ دو دہائیوں کے دوران خطے میں بعض ممالک کو داخلی خلفشار، خانہ جنگی اور فرقہ وارانہ تصادم نے بری طرح متاثر کیا ہے۔ انہی حالات میں شام میں بھی اقتدار کی تبدیلی کے بعد ایک نئی قیادت سامنے آئی جو اسرائیل کے خلاف کسی فعال پالیسی کی حامل نظر نہیں آتی۔
تل ابیب کو چونکہ نئی شامی حکومت سے کوئی بڑا خطرہ محسوس نہیں ہوتا، اس لیے وہ مذاکرات میں کوئی رعایت دینے پر آمادہ نہیں۔ نئی شامی حکومت نے محورِ مزاحمت سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے، جس کے بعد شام اب اسرائیل کا حریف نہیں بلکہ اس کے لیے ایک سیاسی پیغام رسانی کا میدان بن چکا ہے۔
شام کے نئے حکومتی نمائندے ابومحمد الجولانی کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے مثبت اشارے دیے گئے ہیں۔ اس حوالے سے مختلف یورپی اور علاقائی ثالثوں نے 2025 کی پہلی ششماہی میں دمشق اور تل ابیب کے درمیان غیر رسمی روابط کی کوششیں تیز کر دی ہیں۔
رپورٹس کے مطابق نئی شامی حکومت نہ صرف صلح کے لیے تیار ہے بلکہ وہ مقبوضہ جولان پر اسرائیل کی حاکمیت کو تسلیم کرنے کے لیے بھی آمادہ ہے، بشرطیکہ اسے مغربی پابندیوں میں نرمی اور اقتصادی فوائد فراہم کیے جائیں۔
الجولانی کا حالیہ دورہ آذربائیجان بھی انہی کوششوں کا حصہ تھا۔ آذربائیجان اسرائیل کا اہم مسلم اتحادی ملک ہے جو نہ صرف اسے ایندھن فراہم کرتا ہے بلکہ غزہ پر اسرائیلی حملوں کے دوران بھی اس کا ساتھ دیتا رہا ہے۔ اس نے شام کو گیس فراہم کرنے کی پیشکش بھی کی ہے۔
نئی شامی حکومت کی سیاسی اور عوامی بنیاد نہایت کمزور ہے۔ اگر وہ اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرے، تو اس کے خلاف عوامی بغاوت یا داخلی خلفشار پیدا ہو سکتا ہے۔
شام میں اس وقت کوئی مکمل فعال مرکزی حکومت موجود نہیں ہے۔ ملک میں متعدد گروہوں کی موجودگی اور بکھری ہوئی قوتیں ایسی کسی بھی ڈیل کو پیچیدہ بنا دیتی ہیں۔
اگرچہ عرب دنیا کے بعض حکمران اسرائیل سے تعلقات قائم کر چکے ہیں، لیکن عام عرب عوام اب بھی اسرائیل کو غاصب اور دشمن تصور کرتے ہیں۔ شام میں اسرائیل سے تعلقات قائم کرنا عوامی غیظ و غضب کو بھڑکا سکتا ہے اور حکومت کو مزید کمزور کر سکتا ہے۔
Short Link
Copied
مشہور خبریں۔
سی پیک میں مزید 4 راہداریوں کو شامل کیا جا رہا ہے، چینی قونصل جنرل
?️ 14 نومبر 2022اسلام آباد: (سچ خبریں) چین کے قونصل جنرل ژاؤ شیرین نے کہا
نومبر
امریکہ، اسرائیل اور ترکی کی مدد سے دہشت گردوں نے دوبارہ سر اٹھایا:عرب نیشنل کانفرانس
?️ 3 دسمبر 2024سچ خبریں:عرب نیشنل کانفرانس نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ
دسمبر
قرض پروگرام کیلئے مذاکرات جاری، آئی ایم ایف کا ٹیکسز کا ہدف 11 ہزار ارب روپے سے زائد رکھنے پر زور
?️ 16 مئی 2024اسلام آباد: (سچ خبریں) پاکستان اور عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم
مئی
لاکھوں زمینی بم یمن کی 8 سال کی جنگ کی یادگار
?️ 28 مئی 2023سچ خبریں:جب کہ یمن میں جنگ تھم گئی ہے اور ریاض اور
مئی
امیر قطر کا دورہ ایران برجام کے احیاء میں کارگر ثابت ہو سکتا ہے: امریکہ
?️ 12 مئی 2022سچ خبریں: واشنگٹن کے امریکن انسٹی ٹیوٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں
مئی
اسرائیل شام میں بحران کو بڑھانے کا خواہاں
?️ 6 دسمبر 2024سچ خبریں: روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے اعلان کیا کہ شام کے
دسمبر
غزہ پر قبضہ کرنے کا ٹرمپ کا خیالی منصوبہ بے نقاب
?️ 6 فروری 2025سچ خبریں: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن
فروری
عالمی ادارہ نباتات سے کپڑا بنانے میں پاکستان کی مدد کرنے کو تیار
?️ 30 جون 2023اسلام آباد:(سچ خبریں) گلوبل انوائرمنٹ فیسیلٹی (جی ای ایف) کی گورننگ باڈی
جون