سچ خبریں:جہاں ایک طرف ترکی کے جنگلوں میں جان بوجھ کر آگ لگائے جانے کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جارہی ہیں وہیں انقرہ کےآگ پر قابو پانے کے طریقۂ کار نے ملک میں عدم اطمینان اور تنقید کی لہر دوڑا دی ہے۔
ترکی کے جنگلات میں لگی آگ بجھانے کا آپریشن اپنے آٹھویں دن میں داخل ہو چکا ہے ، ترک حکومت کی کوششوں اور آگ کو بجھانے کے لیے دیگر ممالک کی مدد کے باوجود آگ کے شعلے ابھی تک بھڑک رہے ہیں، تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اس ملک کے 32 صوبوں میں 152 مقامات پرآگ لگی تھی جن میں سے 141 جگہوں پربجھ چکی ہے جبکہ 6 صوبوں کے 11 مقامات میں آگ پر قابو پانے کے لیے آپریشن اب بھی جاری ہیں۔
رپورٹ کے مطابق آتشزدگی سے آٹھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ آگ لگنے کے فورا بعد یوکرین ، روس ، آذربائیجان ، اسپین اور کروشیا کے ساتھ ، ایران کی سپاہ پاسداران آگ بجھانے میں کے عمل میں براہ راست مصروف ہے۔
واضح رہے کہ انقرہ حکومت کی درخواست پر ایران نے 31 جولائی کو ایک ایلیوشین 76 سپرنکلر اور دو MI 171 ہیلی کاپٹر ترکی بھیجے جو کہ اتوار سے موغلا کے جنگلات میں لگی آگ بجھانے میں مصروف ہیں ہے،تاہم ان دنوں ترک صدر رجب طیب اردگان کی حکومت کی جانب سے آگ بجھانے کے لیے مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے مایوسی اور تنقید کی لہر نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے جبکہ دوسری طرف اس واقعہ میں PKK اور امریکی قدموں کے نشانات کے بارے میں شکوک و شبہات اس ملک میں اٹھائے جارہے ہیں۔
اگرچہ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی اور نیشنلسٹ پارٹی سے وابستہ کچھ میڈیا اداروں نے جان بوجھ کر آگ لگانے کے لیے کردستان ورکرز پارٹیPKK اور امریکی سیٹلائٹ تنظیموں کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے ، تاہم اس ملک کے سرکاری افسران نے ابھی تک کوئی واضح مؤقف اختیار نہیں کیا ہے۔
واضح رہے کہ ترک حکومت ، جو برسوں سے PKK کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے، پچھلے ایک سال میں اس نے اس تنظیم پر ترکی کے مختلف علاقوں میں جنگل میں آگ لگانے کے الزامات لگائے ہیں،ادھر ترکی اور امریکہ کے درمیان سیاسی کشیدگی اور PKK کے لیے واشنگٹن حکومت کی مکمل حمایت ان دعووں کا باعث بنی کہ امریکی حکومت ترکی میں حالیہ واقعات میں ملوث ہے۔
انہوں نے PKK کے ساتھ امریکی مذاکرات کو اس واقعے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ حالیہ آگ صرف ایک قدرتی آفت نہیں بلکہ اس کا ذمہ دار بائیڈن کی حکومت ہے۔