سچ خبریں: روس کے ممتاز فلسفی اور نظریہ دان الیگزینڈر ڈوگین نے سحاب براڈکاسٹنگ نیٹ ورک کے روسی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے دنیا کی جغرافیائی سیاسی پیش رفت، ٹرمپ کی اقتدار میں واپسی، نئے بین الاقوامی نظام میں ایران اور روس کی پوزیشن اور امریکی خارجہ پالیسی میں گہری تبدیلیوں کا جائزہ لیا۔
اس انٹرویو میں ڈوگین نے امریکی حکمت عملی میں بنیادی تبدیلیوں کا تجزیہ کیا اور ان کا خیال ہے کہ جس دور میں واشنگٹن نے لبرل نظریے اور گلوبل ازم کی بنیاد پر اپنا تسلط قائم کیا تھا وہ اب ختم ہو چکا ہے۔ یہ ماڈل جو ثقافتی اثر و رسوخ پر مبنی تھا، آزاد ریاستوں کی خودمختاری کو مجروح کرتا تھا، اور انجینیئرنگ رنگ انقلابات نے اب سامراجی قوم پرستی کی ایک ایسی شکل اختیار کر لی ہے جس میں امریکہ عالمی رہنما کے طور پر نہیں بلکہ ایک آزاد سلطنت کے طور پر اپنے مفادات کو محفوظ بنانا چاہتا ہے۔
ڈوگین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ٹرمپ امریکی مفادات کو ترجیح دے کر اور عالمگیریت کی پالیسیوں کو ترک کر کے عالمی نظام کی نئی تعریف کرنا چاہتے ہیں۔ اس تبدیلی کا مطلب روایتی اتحادوں پر انحصار کو کم کرنا اور سٹریٹجک علاقوں میں براہ راست امریکی پاور پروجیکشن پر توجہ مرکوز کرنا ہے۔ دریں اثنا، روس اور ایران، دو آزاد طاقتوں کے طور پر جو مغربی تسلط کے سابقہ ماڈل کا شکار ہو چکے ہیں، اس تبدیلی سے آنے والے نئے مواقع سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
انٹرویو کے ایک اور حصے میں انہوں نے ایران کے حوالے سے ٹرمپ کی پالیسی کا جائزہ لیا۔ ڈوگین کے مطابق، اگرچہ ٹرمپ اپنی ایران مخالف پالیسیاں جاری رکھیں گے، لیکن تہران کے بارے میں ان کا نقطہ نظر بائیڈن سے مختلف ہوگا۔ ڈیموکریٹک انتظامیہ کے برعکس، جو "بتدریج کٹاؤ” کی حکمت عملی استعمال کر رہی ہے، ٹرمپ براہ راست اور تیزی سے دباؤ ڈالنے کی کوشش کرے گا۔