سچ خبریں: ابراہیم حسین ابونجا کا فلسطینی مزاحمتی ہتھیاروں کی تیاری میں نمایاں کردار تھا، وہ ہتھیار جو آج صہیونیوں کے لیے ڈراؤنا خواب بن چکے ہیں۔
الجزیرہ چینل کی رپورٹ کے مطابق ابو معتصم کے نام سے موسوم ابراہیم حسین ابونجا ہتھیاروں کی ریورس انجینئرنگ پروجیکٹ میں حماس کی عسکری ونگ عزالدین القسام بٹالین کے اہم کمانڈروں میں سے ایک ہیں، جو 2017 میں رفح میں القسام کے ایک ہیڈکوارٹر میں ہونے والے دھماکے میں شہید ہوگئے۔
یہ بھی پڑھیں: حماس کے عسکری وِنگ القسام بریگیڈ نے صہیونی ریاست کو شدید دھمکی دے دی
ابراہیم ابونجا 20 ویں صدی کی 60 کی دہائی کے وسط میں 1948 کے مقبوضہ علاقوں میں النجویہ کے علاقے میں ایک عسکریت پسند اور غریب فلسطینی خاندان میں پیدا ،انہوں نے اپنی ابتدائی اور ثانوی تعلیم UNRWA کے اسکولوں میں مکمل کی، انہیں صہیونیوں نے 1992 میں پہلی مرتبہ فلسطینی انتفاضہ سے متعلق سرگرمیوں میں حصہ لینے پر گرفتار کیا ۔
اس فلسطینی مجاہد نے 3 سال تک انگریزی کی تعلیم حاصل کی اور پھر عربی کی تعلیم حاصل کی اور 1991 میں اس شعبے میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی، ابونجا نے 1985 میں اخوان المسلمین میں شمولیت اختیار کی اور 1992 میں پہلے انتفاضہ میں سرگرمیوں کی وجہ سے گرفتار کیا گیا اور ساڑھے 3 سال قابض حکومت کی جیلوں میں گزارے۔
القسام بٹالین کی صفوں میں ان کی سرگرمیاں 2000 میں پہلے انتفاضہ کے آغاز سے شروع ہوئیں، ابونجا ان نمایاں انجینئروں میں سے ایک تھے جنہوں نے القسام کے لیے ہتھیار بنانے میں اپنا کردار ادا کیا اور القسام بٹالین کے جدید ہتھیاروں میں ان کا اثر دیکھا جا سکتا ہے۔
جب کہ ابونجا کے پاس 2 کمروں پر مشتمل ایک گھر تھا جس کا ایک کمرہ فوجی سرگرمیوں کے لیے وقف تھا ،انہوں نے اسے ہتھیار بنانے کی ورکشاپ میں تبدیل کر دیا، وہ القسام بٹالین میں کئی عہدوں پر فائز رہے جن میں سے آخری رفح بریگیڈ میں انجینئرنگ یونٹ کی کمان تھی، انہوں نے غزہ کی پٹی کے اندر قابضین کے خلاف القسام کی بیشتر فوجی کاروائیوں میں بھی نمایاں کردار ادا کیا، ابراہیم ابونجا دھماکہ خیز مواد کی انجینئرنگ کے چند ماہرین میں سے ایک تھے اور انہوں نے عسکری صنعت میں بہت سے فلسطینی دھڑوں کی خدمت کرنے اور ان کے ساتھ تجربات کے تبادلے میں حصہ لیا، خاص طور پر جہاد اسلامی تحریک اور عوامی مزاحمتی محاذ وغیرہ کے ساتھ۔
ابو نجا اپنے جہادی اور بہادرانہ موقف اور فلسطینیوں کے دفاع کے لیے قربانیوں کے لیے جانے جاتے تھے،2006 میں ایک مرتبہ القسام بٹالین کے مجاہدین کے ایک گروپ کو دستی بم چلانے کی تربیت دیتے ہوئے، غلطی سے ایک دستی بم القسام فورسز کے قریب گر گیا تو ابو نجا نے باقی مجاہدین کو بچانے کے لیے دستی بم کی طرف چھلانگ لگا دی جس کے باعث وہ شدید زخمی ہو گئے اور دو سال تک بستر پر رہے لیکن صحت یاب ہونے کے بعد انہوں نے القسام بٹالین میں دوبارہ جہاد کا کام شروع کر دیا۔
یہ ممتاز فلسطینی مجاہد صہیونیوں کو مطلوب تھا اور کئی بار ان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا لیکن ہر بار بچ گئے، یہاں تک کہ ان کے ساتھی مذاق میں کہتے تھے کہ ان کی سات جانیں ہیں۔
2008 کی جنگ کے دوران جب ابو نجا القسام بٹالین کے کمانڈروں میں سے ایک تھے، صہیونی جنگی طیاروں نے رفح میں الشبورہ پناہ گزین کیمپ میں ان کے گھر کو نشانہ بنایا، 2014 کی جنگ میں بھی ان پر حملہ کیا گیا، وہ اپنے جہادی کیرئیر کے دوران کئی بار زخمی ہوئے،وہ القسام بٹالینز میں اسرائیلی ہتھیاروں کی ریورس انجینئرنگ کے اہم ترین عہدیداروں میں شمار ہوتے تھے ، انہوں نے غزہ پر داغے گئے صہیونی راکٹوں اور میزائلوں کا معائنہ کیا اور ان کے ٹھیک حصوں کو ہتھیاروں کی تیاری میں انجینئرنگ کے کاموں میں استعمال کیا۔
مزید پڑھیں: القسام نے دیا صیہونی حکومت کو صدی کا دھچکا
یہ بااثر فلسطینی مجاہد بالآخر 7 جون 2017 کو 51 سال کی عمر میں اس وقت ایک دھماکے میں مارا گئے جب وہ القسام کے ایک ٹھکانے پر کام کر رہے تھے،ان کی میت کی آخری رسومات میں حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ اسماعیل ھنیہ سمیت فلسطینی مزاحمت کے سیاسی اور فوجی حکام موجود تھے۔