سچ خبریں: روزنامہ گارڈین نے ایک تجزیے میں حزب اللہ کے سکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ کی شہادت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ اسرائیل نے اپنے اس اقدام سے نہ صرف عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی بلکہ اپنے اہم ترین اتحادیوں، امریکہ اور فرانس کی درخواستوں کو بھی نظرانداز کیا۔
برطانوی اخبار گارڈین نے لکھا کہ جمعرات کو اسرائیلی فضائیہ کا بیروت پر حملہ امریکہ اور فرانس کی جانب سے لبنان میں جنگ بندی کی درخواستوں کے چند گھنٹوں بعد ہوا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیلی حکومت اپنے سب سے بڑے اتحادیوں کی خواہشات کو بھی نظرانداز کر رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا 80 ٹن سے زائد کا بم مارنے سے حزب اللہ ختم ہو گئی؟
رپورٹ میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ اسرائیل نے سید حسن نصراللہ کے قتل کے ذریعے امریکہ خاص طور پر صدر جو بائیڈن کی بے عزتی کی ہے۔
گارڈین کے مطابق، امریکی اور فرانسیسی حکام کا کہنا تھا کہ نیتن یاہو نے ذاتی طور پر لبنان میں جنگ بندی کی منظوری دی تھی، لیکن سید حسن نصراللہ کے قتل نے اس موقف کو عملی طور پر مسترد کر دیا۔
گارڈین کی رپورٹ کے مطابق، حالیہ مہینوں میں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نے ہمیشہ خود کو امریکہ کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار دکھایا، لیکن حقیقت میں اپنی مرضی کے مطابق کارروائیاں کیں۔
جب اسرائیل امریکی سفارتی کوششوں میں دلچسپی کا اظہار کر رہا تھا، اس دوران وہ حزب اللہ پر مکمل حملے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا، جس نے لبنان اور پورے مشرق وسطیٰ میں صورتحال کو شدید بحران میں مبتلا کر دیا ہے۔
اسرائیل نے بارہا ان ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے جو امریکہ نے فراہم کیے اور جب امریکہ اپنے اہم صدارتی انتخابات کی مہم میں مصروف ہے، اسرائیل نے غزہ میں ہزاروں افراد کو قتل کر کے اپنے سب سے بڑے حامی کی بے عزتی کی ہے۔
گارڈین نے مزید کہا کہ موجودہ صورتحال میں امریکی صدر جو بائیڈن کی اسرائیل کی مزید حمایت سے گریز کا امکان پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔
امریکہ کو اب اسرائیل کو وہ ہتھیار فراہم کرنے کا سلسلہ بند کرنا ہوگا جو اسرائیل امریکی درخواستوں کو نظرانداز کرتے ہوئے استعمال کر رہا ہے۔
مزید پڑھیں: ایک نصراللہ کو شہید کر کے اسرائیل کو کیا ملا؟
رپورٹ کے اختتام پر گارڈین نے کہا کہ اگرچہ عالمی رہنما لبنان میں جنگ بندی کو فوری بین الاقوامی ترجیح قرار دے رہے ہیں، لیکن صرف غزہ میں جنگ بندی، قیدیوں کا تبادلہ اور آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ہی مشرق وسطیٰ میں حقیقی امن لا سکتا ہے۔