کابل (سچ خبریں) افغانستان میں طالبان اور افغان فوج کے مابین شدید لڑائی جاری ہے جبکہ طالبان روز بروز اپنے زیر اثر علاقہ کو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور اب تک انہوں نے متعدد اضلاع پر قبضہ کرلیا ہے جس کو دیکھتے ہوئے امریکی کمانڈر نے اہم بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ 4 ہزار افراد پر مشتمل ریپڈ ری ایکشن فورس تشکیل دی ہے جو طالبان کے کا مقابلہ کرنے کے لیئے تیار ہیں۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق مئی کے اوائل میں امریکی فوج کی جانب سے انخلا کے اعلان کے بعد سے افغانستان کے چار سو سے زیادہ اضلاع میں سے 100 سے زائد اضلاع پر قبضہ کر لیا ہے اور اس ماحول میں دیہی علاقوں میں افغان طالبان اور مقامی سیکیورٹی فورسز میں لڑائی میں شدت اختیار کر لی ہے۔
منگل کو کابل میں نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے جنرل اسکاٹ ملر نے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ فضائی حملے نہ کیے جائیں لیکن فضائی حملے نہ ہونے کے لیے آپ کو تمام تر تشدد کو روکنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ میں نے طالبان کو کہا ہے کہ ان کو روکنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جارحانہ کارروائیوں اور فضائی حملوں کو روکا جائے، انہوں نے باور کرایا کہ انخلا کا عمل جاری رہنے کے باوجود امریکی فوج طالبان کے خلاف فضائی حملے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ رواں سال 11 ستمبر کو امریکی تاریخ کی سب سے طویل ترین جنگ کے خاتمے کے اعلان کیا ہے اور بقیہ فوج کا اسی تاریخ تک انخلا کا عمل مکمل ہو جائے گا۔
طالبان کی جانب سے مختلف اضلاع پر قبضے کے دعوؤں کو اکثر سرکاری عہدیدار متنازع قرار دیتے ہیں البتہ ان کی آزادانہ ذرائع سے تصدیق مشکل ہے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ ہفتوں کے دوران نئے اضلاع کے بیشتر حصوں پر طالبان کے قبضے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں لڑنے والی افغان فوج کے لیے امریکی فضائی مدد نہ ہونے کے برابر ہے۔
اسکاٹ ملر نے اعتراف کیا کہ کسی بھی علاقے پر قبضے کے ملک کی مجموعی سلامتی اور سیکیورٹی اثرات مرتب ہوں گے کیونکہ اضلاع اہم علاقوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان کا عوام، صوبائی دارالحکومتوں اور یقینی طور پر دارالحکومت کی سلامتی سے اہم تعلق ہے۔
طالبان نے حال ہی میں قندوز شہر کے آس پاس کے دیگر اضلاع کے ساتھ شمال میں تاجکستان کے ساتھ ایک اہم سرحدی گزر گاہ پر قبضہ کرلیا جس کے بعد عملی طور پر شہر کا محاصرہ ہو چکا ہے۔
طالبان نے ملک کے تقریباً تمام بڑے شہروں کو بھی گھیرے میں لے لیا ہے جس سے یہ خدشہ پیدا ہو گیا ہے کہ وہ امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد کابل پر قبضے کے لیے فوج پر دباؤ ڈالیں گے۔
اسکاٹ ملر نے کہا کہ فوجی قبضہ کسی کے مفاد میں نہیں ہے، یقینی طور پر افغانستان کے لوگوں کے حق میں تو بالکل بھی نہیں ہے، مجموعی طور پر سیکیورٹی کی صورتحال اچھی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ وہ چیز ہے جسے افغان سیکیورٹی فورسز نے تسلیم کیا ہے اور جب ہم یہاں سے نکلیں گے تو وہ مناسب ایڈجسٹمنٹ کر لیں گے۔
طالبان کے بڑھتے ہوئے پرتشدد حملوں کا سامنا کرنے والی افغان وزارت داخلہ نے منگل کے روز اپنے بیان میں کہا ہے کہ اس نے ایک 4 ہزار افراد پر مشتمل ریپڈ ری ایکشن فورس تشکیل دی ہے جس کی سربراہی فوج کے ریٹائرڈ جرنیل کریں گے جو باقاعدہ سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر طالبان کا مقابلہ کریں گے۔