تل ابیب (سچ خبریں) اسرائیل کے سابق وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کو اس وقت ایک اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا جب ان کے نئے اسکینڈل کا پردہ فاش ہوگیا۔
تفصیلات کے مطابق بنجمن نیتن یاہو جو اس وقت حزب اختلاف کے رہنما ہیں ان کی حکومت کے دوران، ان کے دفتر کے حیرت انگیز اخراجات کے بارے میں سنسنی خیز انکشاف ہوا ہے۔
بین الاقوامی نیوز ایجنسی کے مطابق انفارمیشن بیس، یا نیٹ نے اس (مشکوک) اسکینڈل کے طول و عرض کی اطلاعات میں انکشاف کیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ 2017 اور 2020 کے درمیان وزیر اعظم کے دفتر کے ساتھ تعاون کرنے والی کمپنیوں کو 3 ارب سے زائد شیکل کی ادائیگی کی گئی تھی۔
عبرانی زبان کی ویب سائٹ نے دو حصوں کی ایک رپورٹ میں اس شرمناک اسکینڈل کے کچھ حصے شائع کیے، جس میں انکشاف کیا گیا کہ اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر سے صہیونی حکومت کے سابق وزیر، رحبعام زئیفی کے قتل کی برسی کے موقع پر جسے فلسطین کی آزادی کے لئے عوامی محاذ کے فوجی ونگ نے مارا تھا، 26 میلین شیکل خرچ کیئے، اور اس پروگرام کو متعدد یونیورسٹیوں میں مخصوص پارٹیوں کو بغیر کسی ٹینڈر کے دیا گیا، اگرچہ ہمارے پاس ادائیگی کی رقم کے بارے میں قطعی معلومات نہیں ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ستمبر 2019 میں، سامرا (مغربی کنارے کا حصہ – نابلس ہائٹس کا حصہ) کی مہاجر آباد کاری کی کونسل کے لئے ستمبر 2022 میں گاندھی میموریل پروجیکٹ کو چلانے کے لئے 23.5 ملین شیکلز کے بجٹ کی منظوری دی گئی تھی، لیکن جو کچھ انجام دیا گیا وہ ایک چھوٹا سا ترسیلات زر تھا یہ بجٹ جو اس کونسل کے لئے بالکل 277 ہزار شیکل ہے، اس کونسل کو مزید 600 ہزار شیکل کی مدد کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے اور باقی رقم کے بارے میں کسی کو معلوم نہیں کہ کہاں گئی۔
ماہرین کے مطابق یہ اطلاعات جو اب میڈیا تک پہونچ گئی ہیں ان کی روشنی میں نیتن یاہو کے گھوٹالوں میں ایک اور اسکینڈل شامل کرنے اور حتی کہ اس کے لئے عدالت میں ایک نیا مقدمہ درج کرنے کا امکان بڑھ گیا ہے۔