سچ خبریں: یمنی انصار اللہ کے رہنما نے صیہونی ریاست کے غزہ اور لبنان میں ہولناک جرائم کی مذمت کرتے ہوئے مسلمانوں اور عرب ممالک سے اپیل کی کہ وہ ان دشمنانہ اقدامات کے خلاف ہوشیار رہیں۔
المسیرہ خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق یمنی انصار اللہ کے رہنما عبدالملک الحوثی نے اپنے خطاب میں لبنان اور غزہ کی صورتحال پر اظہار خیال کیا۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی دشمن غزہ کی طرح ہر شخص کو نشانہ بنا رہا ہے، مسلمانوں اور پوری انسانیت کو چاہیے کہ وہ دشمن کے عزائم کو سمجھیں اور مکمل آگاہی کے ساتھ ردعمل کا اظہار کریں ،عرب ممالک کو خاص طور پر ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ سب سے پہلے دشمن کا نشانہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: صیہونی غزہ اور لبنان کے خلاف اتنی درندگی کا مظاہرہ کیوں کر رہے ہیں؟
الحوثی نے مزید کہا کہ اسرائیل کے ہولناک جرائم اور عالمی اور علاقائی موقف، جو ان جرائم سے وابستہ ہیں، ہمارے لیے آگاہی اور بصیرت کا سبب ہونا چاہیے۔
ہمیں دشمن کی مخالفت کے لیے مکمل بصیرت اور حکمت کی ضرورت ہے اور ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ہمیں ان کے بڑے خطرات کا کس طرح سامنا کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی دشمن غزہ میں ہر فرد کو نشانہ بنا رہا ہے، چاہے وہ کسی بھی سیاسی یا فکری وابستگی رکھتا ہو۔ "اسرائیلی دشمن نے صحافیوں، ڈاکٹروں، اساتذہ اور ہر ایک پر حملہ کیا ہے، غزہ میں دکھائی دینے والے مناظر اسرائیلی مظالم کا واضح ثبوت ہیں۔
الحوثی نے یہ بھی کہا کہ اسرائیلی دشمن لبنان میں بھی ہر شخص کو بلا تفریق نشانہ بنا رہا ہے، جیسے نبطیہ میں ہوا، جہاں سرکاری حکام کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
انہوں نے صیہونی دشمن کی وحشیانہ کارروائیوں کو بے وقوفی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دشمن انسانیت سے عاری ہے اور انہیں کچھ سمجھ نہیں آتی۔
الحوثی نے امریکہ کو اسرائیلی جرائم میں شریک قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر امریکہ کی حمایت نہ ہوتی تو اسرائیل آج تک اس طرح کے جرائم اور حملے جاری نہیں رکھ سکتا تھا۔ امریکہ اور اسرائیل ایک ہی مقصد کے لیے کام کر رہے ہیں، اور ان کا منصوبہ عرب ممالک کے خلاف نسل کشی ہے۔”
انہوں نے کہا کہ دشمن کا مقصد امت مسلمہ کی آزادی، خودمختاری اور عزت کو ختم کرنا ہے،امریکہ اور مغربی ممالک اسرائیل کو مالی، فوجی اور سیاسی حمایت فراہم کرتے ہیں، جبکہ اپنے بیانات میں دھوکہ دہی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
الحوثی نے مزید کہا کہ خطے میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ اچانک نہیں ہے، بلکہ یہ فلسطینی عوام کی سو سال سے زائد عرصے سے جاری جدوجہد اور برطانوی اور اسرائیلی قبضے کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ صیہونی ریاست اپنے آغاز سے ہی مغربی حمایت کے ساتھ وحشیانہ کارروائیاں کر رہی ہے، اور پچھلے 45 سالوں میں اس نے بدترین جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔
الحوثی نے زور دیا کہ یہ بات سب پر عیاں ہو چکی ہے کہ نہ اقوام متحدہ، نہ سلامتی کونسل اور نہ ہی بین الاقوامی ادارے اس خطرے کو روک سکتے ہیں۔ امت مسلمہ کی اخلاقی، انسانی اور اسلامی ذمہ داری ہے کہ وہ اس خطرے کے خلاف اٹھ کھڑی ہو اور ردعمل دکھائے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے دیکھا کہ غزہ اور لبنان میں مزاحمت کرنے والوں نے دشمن کا مقابلہ کیا، حالانکہ کچھ عرب اور اسلامی ممالک دشمن کے ساتھ ملے ہوئے تھے۔
الحوثی نے مزید کہا کہ دشمن اسرائیل اجتماعی قتل و غارت اور نسل کشی پر اتر آیا ہے، لیکن میدان میں شکست کھا چکا ہے۔ غزہ میں نسل کشی جاری ہے، اور اسرائیلی دشمن بے رحمی سے پناہ گزینوں اور ان کے اسکولوں کو امریکی بموں سے نشانہ بنا رہا ہے۔
یمن کی انصار اللہ کے رہنما عبدالملک الحوثی نے اسرائیلی دشمن کی جانب سے غزہ کے شمالی علاقے کو غیرآباد بنانے کی کوششوں پر تنقید کی اور کہا کہ اسرائیل وہاں زندگی کے تمام آثار کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
رپورٹ کے مطابق، الحوثی نے اپنے بیان میں کہا کہ جب غزہ کے کچھ باشندے شمال سے جنوب کی طرف منتقل ہو رہے تھے، اسرائیلی دشمن نے انہیں سڑکوں پر نشانہ بنایا، یہاں تک کہ زخمیوں کی مدد اور لاشوں کو نکالنا بھی ناممکن ہو گیا۔
اسرائیلی دشمن جان بوجھ کر غزہ کے شمالی علاقے میں خوراک اور پانی کی فراہمی کو روک رہا ہے تاکہ عالمی برادری کی آنکھوں کے سامنے وہاں کے لوگ بھوک اور پیاس سے مر جائیں، دشمن نے شمالی غزہ کے ہسپتالوں کو دوبارہ نشانہ بنایا اور طبی خدمات کو بھی روک دیا ہے۔
الحوثی نے مزید کہا کہ اسرائیلی دشمن، امریکہ اور مغرب کی حمایت سے، سب کو بے دردی سے نشانہ بنا رہا ہے۔ غزہ کے شمال میں موجودہ صورتحال انسانیت کے ماتھے پر ایک بدنما داغ ہے، اور سب سے زیادہ شرمناک بات یہ ہے کہ اسلامی دنیا اس ظلم پر خاموش ہے۔
اسلامی دنیا کی جانب سے ردعمل صرف بیانات اور اجلاسوں تک محدود رہا ہے، جبکہ عملی طور پر کچھ نہیں کیا جا رہا، غزہ میں مزاحمت کا تسلسل دکھاتا ہے کہ واحد مؤثر راستہ یہی مزاحمت ہے۔
انہوں نے کہا کہ عرب ممالک نے امن کی خاطر امریکہ سے رجوع کیا، حالانکہ امریکہ خود اسرائیل کا اتحادی ہے اور ان ممالک کا امن ایک سراب کے سوا کچھ نہیں۔
الحوثی نے کہا کہ عرب ممالک پر غزہ کی عسکری، مالی اور میڈیا کے ذریعے بھرپور حمایت کی ذمہ داری ہے، اگر عرب ممالک فلسطینی عوام کا ساتھ دیتے تو مزاحمت کی صورتحال بالکل مختلف ہوتی، ایک طرف امریکہ کی بے دریغ حمایت ہے، اور دوسری طرف عرب ممالک کی شرمناک خاموشی ہے۔
انہوں نے لبنان میں اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے انتشار پھیلانے کی سازشوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی دشمن ہمیشہ سے لبنان کے لیے ایک حقیقی خطرہ رہا ہے۔
صیہونی دشمن نے پہلے لبنان پر قبضہ کیا، لیکن حزب اللہ کے مجاہدین نے اسے پسپا کر دیا۔ اسرائیل لبنان کے خلاف اپنی سازشوں سے باز نہیں آئے گا اور حزب اللہ کے رہنماؤں کے قتل کے ذریعے وہ مزاحمت کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
الحوثی نے کہا کہ اسرائیلی دشمن نے لبنان کی سرحد پر چار بریگیڈز بھیجے، لیکن حزب اللہ کے مجاہدین کی مزاحمت نے انہیں حیران کر دیا۔ دشمن نے حزب اللہ کو ختم کرنے اور مشرق وسطیٰ میں اپنے مقاصد حاصل کرنے کا خواب دیکھا تھا، لیکن زمینی حملے میں انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
الحوثی نے حزب اللہ کی میزائل حملوں میں اضافے اور لبنان کے اندر سیاسی اتحاد کی مضبوطی کی تعریف کی، جبکہ اسرائیل اور امریکہ لبنان میں سیاسی صورتحال کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مزاحمتی محاذ کی ذمہ داری ہے کہ وہ لبنان اور وہاں کے مجاہدین کی حمایت کرے، اور عرب ممالک کو بھی اس میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
دشمن لبنان میں شکست کھا چکا ہے اور زمین پر مسلسل ناکامیوں کا سامنا کر رہا ہے۔ اسرائیل اپنی ہزیمت اور نقصانات کو چھپانے کی کوشش کر رہا ہے، لیکن لبنان میں اس کی ناکامیاں اتنی بڑی ہیں کہ انہیں چھپانا ممکن نہیں۔
الحوثی نے مزید کہا کہ امریکہ نے اسرائیل کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ عراق کا محاذ بھی بہت فعال ہو چکا ہے، خاص طور پر لبنان پر اسرائیلی حملے کے بعد۔ اسرائیل کا نیل سے فرات تک کا عظیم اسرائیل کا منصوبہ عراق کو بھی نشانہ بنا رہا ہے۔
اسرائیل کی دینی قیادت سے دشمنی اس کی گہری دشمنی اور کینہ پروری کو ظاہر کرتی ہے، جو اس امت کی تمام طاقتوں کے خلاف ہے۔
یمن کے انصار اللہ کے رہنما عبدالملک الحوثی نے اپنے حالیہ بیان میں اسرائیلی جارحیت اور اس پر عالمی ردعمل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے عالمی برادری کے سامنے سب سے پہلے اسلامی جمہوریہ ایران پر حملہ کیا، اور جب ایران نے اس کا جواب دیا تو امریکہ، اسرائیل اور مغربی ممالک نے ایران کے ردعمل کو اشتعال انگیزی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور اسرائیل جو معادلہ چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ خطے میں کوئی ردعمل نہ ہو، حالانکہ یہ معادلہ جانوروں کی دنیا میں بھی قابل قبول نہیں۔
الحوثی نے مزید کہا کہ اسرائیلی دشمن نے پہلے حملہ کیا اور ایران نے صرف دفاع میں جواب دیا۔ امریکہ اور یورپی ممالک نے اسرائیل کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے تاکہ وہ جو چاہے کرے، اور اسے "دفاعِ خود” قرار دیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مغربی ممالک کی نظر میں لبنان اور فلسطین کو اپنے دفاع کا حق نہیں ہے، اور ان کی کارروائیاں دہشتگردی قرار دی جاتی ہیں، یہی حال ہمارے ملک کا بھی ہے۔
عرب حکومتیں حماس اور اسلامی جہاد کی کارروائیوں کو دہشتگردی کہتی ہیں تاکہ امریکہ کا مطلوبہ معادلہ پورا ہو جائے۔ ایران کا موقف بہادرانہ اور فیصلہ کن تھا، اور ایران کو اپنی ذمہ داری کے تحت اسرائیلی دشمن اور اس کی جارحیت کا مقابلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔
انصار اللہ کے رہنما نے صیہونی ریاست کی خطے میں طمع اور توسیع پسندانہ عزائم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ واحد حل جدوجہد اور جہاد ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر اسرائیلی دشمن فلسطین اور لبنان سے فارغ ہو جائے، تو وہ اپنے منصوبوں کو شام، اردن، عراق، مصر اور سعودی عرب تک بڑھا دے گا، مکہ اور مدینہ بھی اسرائیلی دشمن کے حملوں کے تحت ہیں، اور ان کے اہداف کو ناکام بنانے کا واحد راستہ مزاحمت اور جدوجہد ہے۔
الحوثی نے کہا کہ اسرائیلی دشمن اپنی شیطانی اور توسیع پسندانہ منصوبوں کے ساتھ امریکہ کی مدد سے آگے بڑھ رہا ہے اور پوری امت اسلامی کے لیے خطرہ ہے۔
انہوں نے غزہ میں جنگ کے طویل ہونے کی ایک وجہ امریکہ اور مغربی طاقتوں کی مداخلت اور ان کے منصوبوں کو قرار دیا۔
انہوں نے عرب ممالک کے عالمی اداروں کی طرف رجوع کو بے فائدہ قرار دیا اور کہا کہ فلسطینیوں کو مذاکرات سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔ "نتن یاہو نے اقوام متحدہ میں ایک نقشہ پیش کیا جس میں فلسطین کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ غداری اور سودے بازی اسرائیلی دشمن کو اپنے مقاصد کے قریب لے آتی ہے۔
الحوثی نے خلیجی ممالک اور یورپ کے سربراہان کے اجلاس کا ذکر کیا اور کہا کہ اس اجلاس میں بھارت سے مشرق وسطیٰ اور یورپ تک کے منصوبے پر بات کی گئی تھی، جس کا ذکر نتن یاہو نے اقوام متحدہ میں کیا تھا۔
انصار اللہ کے رہنما نے کہا کہ امریکہ اور یورپ کا مقصد اسرائیلی ریاست کو خطے پر مسلط کرنا ہے، اور عرب ممالک کو اسرائیل کے تابع بنانا ہے،انہوں نے کہا کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ اسرائیل کے خطرے سے محفوظ ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اسرائیل کی طمع اور منصوبے سب کے سامنے ہیں۔ جب نتن یاہو مشرق وسطیٰ میں تبدیلی کی بات کرتا ہے تو سب کو خطرے میں سمجھنا چاہیے۔
انہوں نے اسرائیل کے خلاف یمنی مسلح افواج کی کارروائیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ دنوں میں اسرائیل اور اس کے اتحادیوں سے تعلق رکھنے والے 196 جہازوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
الحوثی نے مزید کہا کہ میزائل اور ڈرون حملے جاری رہیں گے، اور اس ہفتے 25 میزائل اور ڈرون حملے کیے گئے ہیں۔ یمنی عوام کی لاکھوں کی تعداد میں شرکت طوفان الاقصیٰ کی سالگرہ پر حماس کی درخواست پر ردعمل تھی۔
انہوں نے کہا کہ امریکی اور برطانوی فضائی حملے یمن پر جاری ہیں، لیکن دشمن اپنے مقاصد میں ناکام رہا ہے۔
مزید پڑھیں: یمن کے خلاف امریکی حملے میں استعمال ہونے والے بم کس نوعیت کے تھے؟
الحوثی نے میڈیا میں یمنی عوام کے خلاف جاری مہم کو امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کی خدمت قرار دیا اور یمنی عوام کی بیداری اور بصیرت کی تعریف کی۔
انہوں نے کہا کہ یمنی عوام اپنے داخلی محاذ کو دشمن کے پروپیگنڈے سے متاثر نہیں ہونے دیں گے اور فلسطین و لبنان کی حمایت جاری رکھیں گے۔
انہوں نے یمن کے عوام سے اپیل کی کہ کل صنعا اور دیگر صوبوں میں بڑے پیمانے پر مظاہرے کیے جائیں۔