سچ خبریں:2015 سے، جب یمن کے خلاف سعودی اتحاد کی فوجی جارحیت شروع ہوئی، اس چھوٹے سے عرب ملک کو بھاری جانی و مالی نقصان پہنچایا گیا؛ اس طرح کہ اسے دنیا کا بدترین انسانی بحران کہا جاتا ہے۔
26 مارچ 2015 کو سعودی عرب اور خلیج فارس تعاون کونسل کے رکن ممالک کی جانب سے – عمان کو چھوڑ کر – یمن کے خلاف فیصلہ کا طوفان کے نام سے باضابطہ آپریشن شروع کیا گیا جو تقریباً آٹھ سال سے جاری ہے، تاہم اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یمن کی جنگ جو اندرونی تنازع سے شروع ہوئی اور سعودی عرب اور اس کے فوجی اتحاد کی مداخلت نیز جارحیت تک جا پہنچی، اتنے برس سے کیوں جاری ہے؟
سعودی عرب کو امریکی ہتھیاروں کی فروخت
مغربی ایشیائی خطے کی بہت سی بین الاقوامی تنظیمیں اور ماہرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ امریکہ نے یمن کی جنگ کو خطے کے ممالک کو اپنے ہتھیار فروخت کرنے کے لیے استعمال کیا ہے اور اس مارکیٹ کے پروڈیوسروں اور دلالوں کو بہت زیادہ فائدہ پہنچایا ہے،یمن کی عوامی مزاحمتی تحریک انصاراللہ کے سربراہ نے اس خونریز جنگ کے دوران بارہا کہا ہے کہ امریکہ جان بوجھ کر یمن میں دنیا کی بدترین انسانی تباہی اور تباہ کن جنگ کو طول دے رہا ہے تاکہ سعودی عرب اور اس کے علاقائی اتحادیوں کے ساتھ ہتھیاروں کے معاہدوں سے بہت زیادہ منافع حاصل کر سکے، ان کے مطابق امریکہ یمن میں امن اور استحکام کی بحالی کے لیے سلطان عمان اور دوسرے رہنماؤں کے کسی بھی اقدام کو منسوخ کرتا ہے۔
اس یمنی رہنما نے زور دے کر کہا کہ امریکہ یمن کے طویل بحران سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے جبکہ واشنگٹن پہلے ہی جنگ کے دوران ریاض اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ ہتھیاروں کے سودوں کے ذریعے بہت زیادہ منافع کما چکا ہے،امریکہ کے سیاستدان یمنیوں پر قابو پانے کے لیے اس ملک کو ایک ماتحت ریاست بنانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں،ان کے بقول یمن کے قدرتی وسائل پر سعودی اتحاد کا قبضہ ہے اور یہ اتحاد اس ملک کے آئل فیلڈز اور قدرتی وسائل کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی سے یمنیوں کو محروم کرنے کا ذمہ دار ہے،اس کے علاوہ مارچ 2015 میں جارحیت کے آغاز کے بعد سے امریکی یمن کے مختلف علاقوں کے خلاف سعودی عرب کی قیادت میں بمباری کی کاروائی کی کمانڈ کر رہے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ یمنی عہدیدار کے ان دعوؤں کی تصدیق بعض مغربی اخباروں اور میگزینوں نے بھی کی ہے؛
امریکن پراسپیکٹ: امریکی میگزین امریکن پراسپیکٹ کی رپورٹ کے مطابق مارچ 2015 سے مارچ 2022 کے درمیان سعودی عرب کی قیادت میں فوجی اتحاد نے امریکی ساختہ بموں کا استعمال کرتے ہوئے اور امریکی فوج کی مدد سے یمن پر 2500 سے زائد فضائی حملے کیے ہیں۔
آکسفیم:بین الاقوامی امدادی تنظیموں میں سے ایک آکسفیم کا بھی کہنا ہے کہ برطانوی اور امریکی ہتھیار، جو سعودی عرب کو فراہم کیے گئے ہیں، یمن میں عام شہریوں پر حملوں میں براہ راست استعمال ہوئے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ:واشنگٹن پوسٹ نے 2016 میں "تھامس گبنس نیف” کی تیار کردہ ایک رپورٹ میں لکھا تھا کہ سوشل میڈیا پر شائع ہونے والی تصاویر اور ویڈیوز کے مطابق سعودی عرب سفید فاسفورس سے تیار کردہ گولہ بارود استعمال کرتا ہے جو اسے یمن کے خلاف جنگ میں استعمال کرنے کے لیے امریکہ نے دیا تھا۔
یمن کو عالمی خوراک کی امداد کی ضرورت
بین الاقوامی مانیٹرنگ اداروں کی طرف سے شائع ہونے والی تقریباً تمام رپورٹس میں اس تباہ کن جنگ کا ایک اہم ترین ہدف یمن کی حکومت اور عوام کو کمزور اور مایوس کرنا ہے،امریکی تھنک ٹینک سی ایف آر کے مطابق یمن کے آٹھ سالہ تنازعے نے اس ملک کے انسانی بحران کو پچھلی صدی میں بڑے پیمانے پر بھوک، بیماری اور عام شہریوں پر حملوں کے باعث دنیا کے بدترین بحرانوں میں سے ایک کی صف میں کھڑا کر دیا ہے۔
یمن جنگ میں ہونے والی ہلاکتیں
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام نے پہلے خبردار کیا ہے کہ خطے کے غریب ترین ممالک یمن میں جنگ اس ملک کی ترقی اور پیش رفت کو دو دہائی پیچھے لے جا چکی ہے،اس تنظیم نے اس ملک میں فوجی تنازعات کے جاری رہنے کے بارے میں خبردار کیا کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر صورتحال اسی طرح جاری رہی تو 2030 تک جنگ متاثرین کی تعداد تقریباً 13 لاکھ تک پہنچ جائے گی،اقوام متحدہ سے وابستہ اس ادارے نے گزشتہ سال کے آخر میں ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں اعلان کیا تھا کہ یمن میں سات سال سے جاری جنگ میں بالواسطہ اور بلاواسطہ انسانی ہلاکتوں کی تعداد اس سال کے آخر تک 377000 تک پہنچ جائے گی۔
نتیجہ
ایک تحقیقی رپورٹ میں بروکنگز انسٹی ٹیوٹ نے زور دیا کہ یمن کی جنگ امریکہ کی جنگ ہے،سعودی عرب نے ایک ایسی جنگ کی قیادت کرنے کے لیے امریکہ سے ہتھیار خریدنے پر دولت خرچ کی ہے جس میں ان ہتھیاروں سے تقریباً ایک چوتھائی ملین افراد ہلاک ہو چکے ہیں،اس کے علاوہ ہتھیاروں کی فروخت سے باخبر رہنے کی تنظیم اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق سعودی عرب یمن جنگ کے پہلے پانچ سالوں میں 2015 سے 2019 تک دنیا کا سب سے بڑا ہتھیار درآمد کرنے والا ملک تھا،اس رپورٹ کے مطابق اس ملک کی اہم ہتھیاروں کی درآمدات میں گزشتہ پانچ سالہ مدت کے مقابلے میں 130 فیصد اضافہ ہوا ہے،یمن جنگ سے پہلے کے پانچ سالوں میں سعودی عرب کو امریکی اسلحے کی ترسیل کل 3 بلین ڈالر تھی جبکہ 2015 اور 2020 کے درمیان امریکہ نے ریاض کو 64.1 بلین ڈالر سے زیادہ کا اسلحہ فروخت کرنے پر اتفاق کیا جو اوسطاً 10.7 بلین ڈالر سالانہ ہے جبکہ جنگ میں دوسرے فریقوں کو اسلحے کی فروخت، جیسے کہ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا۔
مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ سابق امریکی صدر براک اوباما یمن کا محاصرہ کرنے والے اور اس ملک کے ےشہری اہداف پر مہلک فضائی حملے کرنے والے سعودی اتحاد کی فوجی، سفارتی اور انٹیلی جنس معاونت کو منقطع کرکے اس جنگ کو شروع ہی میں ختم کر سکتے تھے لیکن 2015 میں امریکہ کی طرف سے فوجی ہتھیاروں کی فروخت سے حاصل ہونے والے اربوں ڈالر کے منافع نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا نیز اس کے بعد ٹرمپ انتظامیہ بھی اس جنگ کو جاری رکھنے کے لیے بہت بے تاب تھی اور مائیک پومپیو نے فرض کیا کہ جنگ شروع کرنے والوں کی فتح کے ساتھ ہی ختم ہوگی، اس لیے انہوں نے سعودی عرب کو بھاری اور مہلک ہتھیاروں کی فروخت میں مزید سہولت فراہم کی۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا برسوں کی جنگ کے بعد بھی یمن میں قتل و غارت اور عام شہریوں کو جن میں زیادہ تر خواتین، بچے اور بوڑھے ہیں، کو نشانہ بنانے اور مشرق وسطیٰ میں ہتھیاروں کی دوڑ کو روکنے کا وقت نہیں آیا؟ جس کا فائدہ صرف امریکی ملٹری کمپنیوں کو ہوتا ہے اور خطے میں موت کے دلال موٹے ہوتے ہیں، کیا اس کی روک تھام نہیں ہونا چاہیے؟