سچ خبریں: غزہ کی پٹی کے خلاف حملوں کا تیسرا مرحلہ شروع کرنے کے لیے تل ابیب کے عروج کی خبروں کے سائے میں صیہونی حکومت غزہ کی مزاحمت کو عارضی جنگ بندی میں پھنسانے کی کوشش کر رہی ہے، ایک ایسا اقدام جسے حماس اور اسلامی جہاد کے مشترکہ موقف نے ناکام بنا دیا۔
حماس اور اسلامی جہاد تحریکیں جنہوں نے گزشتہ 7 اکتوبر کو طوفان الاقصیٰ آپریشن کے دوران متعدد اسرائیلیوں کو گرفتار کیا تھا، نے ایک متحدہ موقف میں اعلان کیا کہ جب تک صیہونی جکومت تین مہینے سے جاری غزہ کے خلاف اپنی جارحیت جس کے نتیجہ میں 20000 سے زائد عام شہری شہید ہوچکے ہیں ،کو نہیں روکے گی،اس کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: حماس عارضی جنگ بندی کی مخالفت کیوں کر رہی ہے؟
فلسطینی مزاحمت پر متعدد کوششوں اور مسلسل دباؤ کے باوجود اسے اپنی شرائط سے منحرف کرنے اور عارضی جنگ بندی کے لیے مذاکرات کا دروازہ کھولنے کے ساتھ ساتھ غزہ میں حملوں اور بمباری کے ذریعے مسلسل فوجی دباؤ کے باوجود مزاحمت ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹی۔
اس معاملے میں بنیامین نیتن یاہو کی قیادت میں اسرائیل کی کوششیں مکمل طور پر ناکام ہوئیں اور حماس اور غزہ میں اس کے سربراہ یحییٰ السنور کی طرف سے منفی ردعمل کے سوا کچھ نہیں ملا،اس سے یہ سوال پیدا ہوا کہ حماس عارضی جنگ بندی کو کیوں مسترد کرتی ہے،کیا ایسی جنگ بندیاں نیتن یاہو کی لائف لائن ہیں؟
طاقت کے پتے
23 دسمبر کو روزنامہ رائے الیوم نے اس سلسلے میں ایک کالم شائع کیا اور لکھا کہ مزاحمتی گروہوں کا خیال ہے کہ قابضین نے سابقہ معاہدوں کو چھوڑ دیا ہے اور ان کی متعدد بار خلاف ورزی کی ہے جو ناقابل قبول ہے لہذا اب جامع جنگ بندی کا حصول صرف جنگ کے خاتمے سے ہی ممکن ہے۔
گزشتہ عارضی جنگ بندی کے دوران حماس نے 240 خواتین اور بچوں کے بدلے 100 سے زائد اسرائیلی خواتین اور بچوں کو رہا کیا، جن میں غیر ملکی شہری بھی شامل تھے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کے اب بھی غزہ میں 129 قیدی موجود ہیں جن میں متعدد اسرائیلیوں کی لاشیں بھی شامل ہیں۔
تحریک حماس کے سینئر رکن حسام بدران کا کہنا ہے کہ قابض حکومت جب حماس کے ہاتھوں پکڑے گئے اپنے درجنوں فوجیوں کے بارے میں بات کرتی ہے تو دنیا کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ یہ فوجی ہی 7 اکتوبر کو شروع ہونے والی موجودہ جنگ کا اصل مسئلہ اور وجہ ہیں۔
انہوں نے اس بات پر تاکید کی کہ حماس غزہ کے باشندوں کی صورت حال پر فکرمند ہے اور اسرائیل کی جارحیت کو ہمہ جہت اور مستقل طور پر روکنے کا مطالبہ کرتی ہے ، اسی وجہ سے وہ اس معاملے پر اصرار کرتی ہے اور موجودہ مرحلے پر دیگر معاملات پر بات کرنے سے پہلے، یہ اس معاملے پر زور دیتی ہے، اس لیے جب تک جنگ مکمل طور پر بند نہیں ہو جاتی، باقی مقدمات اور معاملات کو میز پر نہیں رکھا جا سکتا ، جن میں سب سے اہم غزہ کی پٹی کی تعمیر نو اور قیدیوں کے تبادلے کے معاملے کو دوبارہ کھولنا ہے۔
بدران نے کہا کہ موجودہ مرحلے میں قیدیوں کے تبادلے کے حوالے سے کاروائی کرنے اور ثالثوں سے اس کیس کو دوبارہ کھولنے کی درخواست کرنے کا اصل محرک اسرائیلی معاشرے خاص طور پر زیر حراست قیدیوں کے اہل خانہ کی طرف سے بڑھتے ہوئے دباؤ سے نمٹنا ہے۔
صہیونی سرکاری ٹیلی ویژن نے اس سے قبل انکشاف کیا تھا کہ السنوار نے ثالثوں کو مطلع کیا تھا کہ حماس مکمل جنگ بندی کے بعد ہی ایک ایسے معاہدے کے لیے تیار ہے جس میں سب کے بلے میں سب کی آزادی شامل ہو گی، مزاحمتی گروپوں نے یہ بھی کہا کہ اس سلسلے میں قومی اتفاق رائے ہے اور وہ قیدیوں اور ان کے تبادلے کے معاہدے کے بارے میں تب ہی مذاکرات کریں گے جب جنگ مکمل طور پر رک جائے گی۔
سب کچھ السنور کے ہاتھ میں ہے
حماس کو قلیل مدتی جنگ بندی پر تحفظات تھے اور اس نے کم از کم 14 دن کی جنگ بندی کا مطالبہ کیا جب کہ تل ابیب نے 5 دن کی جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی اور پھر اس میں ایک دن کی توسیع کر دی ، مبصرین اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگلے مرحلے میں عارضی جنگ بندی مکمل طور پر اسرائیل کے حق میں ہو گی کیونکہ اس سے اسرائیلی قیدیوں کے اہل خانہ کی جانب سے نیتن یاہو پر اندرونی دباؤ کم ہو جائے گا اور بین الاقوامی اور امریکی دباؤ کی شدت میں بھی کمی آئے گی جو انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا مطالبہ کرتے ہیں۔
دوسری جانب ان جنگ بندیوں سے اسرائیلی فوج کو بھی فائدہ پہنچے گا، جو خاص طور پر غزہ کے شمالی اور جنوبی علاقوں میں اپنے بکھرے ہوئے کارڈز کو چھانٹنا چاہتی ہے،جن علاقوں میں اس کا بہت زیادہ انسانی اور مالی نقصان ہوا ہے، اس لیے عارضی جنگ بندی اسرائیلی افواج کے لیے آرام اور سانس لینے کا موقع ہو گی، جو غزہ میں آپریشن کی مشکلات کی وجہ سے دم توڑ رہے ہیں۔
مزید برآں صیہونی ٹی وی (کان) نے خبر دی ہے کہ فوج اگلے چند ہفتوں میں غزہ کی پٹی میں جنگ کے تیسرے مرحلے کے آغاز کی تیاری کر رہی ہے، جس میں زمینی پینتریبازی کا خاتمہ ،غزہ کی پٹی، فوجیوں کی تعداد میں کمی، ریزرو فورسز کو آرام، فضائی حملوں کا رخ کرنا اور غزہ اور اسرائیل کی سرحدوں پر بفر زون بنانا بھی شامل ہے۔
اس کے علاوہ، گزشتہ جمعرات کو غزہ کی پٹی میں زمینی کاروائیوں میں کمی کرتے ہوئے گولانی بریگیڈ – اسرائیلی فوج کی انفنٹری بریگیڈ – نے غزہ میں 70 دن کی جنگ کے بعد اس علاقے سے انخلاء کا فیصلہ کیا اور یہ دعویٰ کیا گیا کہ غزہ سے اس بریگیڈ کے انخلاء کا مقصد اپنی افواج کی تنظیم نو اور مختصر مدت کے لیے آرام ہے۔
صہیونی فوج غزہ کے خلاف حملوں کے تیسرے مرحلے کے آغاز کی بات کر رہی ہے، جب کہ غزہ میں فوج کی کارروائیوں کا دوسرا مرحلہ ابھی تک فتح اور قیدیوں کی واپسی جیسے بیان کردہ اپنے اہداف کو حاصل نہیں کرسکا ہے۔
رائے الیوإ کے کالم میں کہا گیا ہے کہ ایسے ماحول میں مزاحمت کا خیال ہے کہ عارضی جنگ بندی انسانی صورت حال کے معاملے میں اسرائیل کو بلیک میل کرنے کی کوشش ہے،حالیہ عارضی جنگ بندی کے دوران کوئی بھی اہداف حاصل نہیں ہوسکا اور اسرائیل اس کی خلاف ورزی کرتا رہا تاکہ غزہ کی پٹی کے مکینوں کو یہ محسوس نہ ہو کہ جنگ بندی ہوگئی ہے،پناہ گزینوں کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی محدود تھی ، غزہ کی مشکل انسانی صورت حال میں کوئی فرق نہیں آیا بلکہ دن بہ دن حالات بدتر ہوتا چلے گئے اور جو بھی اپنے گھر واپس جانا چاہتا تھا اسے قابضین کی گولیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
مبصرین کا خیال ہے کہ اگلا مرحلہ مزاحمت کے لیے زیادہ فیصلہ کن ہو گا اور کسی بھی جنگ بندی پر اتفاق بہت زیادہ قیمت پر ہو گا، کیونکہ قیدیوں کا کارڈ اس عرصے میں مزاحمت کا سب سے مضبوط کارڈ ہے، جبکہ کئی عبرانی ذرائع ابلاغ کا اصرار ہے کہ یہ السنوار ہے جو گولیاں چلا رہا ہے، وہی پہلی اور آخری گولی مارتا ہے، لیکن السنوار کے دماغ میں کیا چل رہا ہے؟ غزہ کا کیا حشر ہوگا؟ کیا جنگ آخری مراحل میں ہے؟
مزید پڑھیں: اسرائیل کی حماس کے لئے جنگ بندی کی نئی تجویز کیا ہے؟
فلسطین کی اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کی عسکری شاخ کتائب القسام اور دیگر مزاحمتی گروپوں کا ایک دن بھی ایسا نہیں گزرتا کہ وہ اسرائیلی فوج کی بکتر بند گاڑیوں کی تباہی اور صیہونی فوجیوں کی ہلاکتوں کے بارے میں بیان شائع نہ کرتے ہوں۔